سورة الكهف - آیت 109

قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو کہہ اگر میرے رب کی باتوں کے (لکھنے کے) لئے سمندر سیاہی بن جائے ، تو میرے رب کی باتیں تمام ہونے سے پہلے سمندر خرچ ہوجائے گا اور اگرچہ ہم ویسا ہی ایک اور سمندر مدد میں لائیں (ف ٣) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

حزقیل کی پیشین گوئی کا مصداق : اب پھر حزقیل ایک نبی کی پیشین گوئی پر ایک نظر ڈال لو، اس میں جوج کو روش، مسک اور توبال کا سردار کہا ہے اور یہ ٹھیک ٹھیک انہی قبائل کے نام ہیں۔ روشن وہی ہے جس سے رشیا نکلا، مسک وہی ہے وج موسکو ہوا اور توبال بحر اسود کا بالائی علاقہ تھا۔ْ پھر کہا ہے کہ میں تجھے پھرادوں اور تیرے جبڑوں میں بنسیاں ماروں گا، یہ وہی واقعہ ہے کہ سائرس نے سیتھین قبائل کے منہ پھرا دیے اور سد تعمیر کر کے ان پر ان کی راہ روک دی۔ پھر کہا ہے ایسا معاملہ واقع ہوگا کہ ان کے تمام ہتھیار جلا دیے جائیں گے، اور روزگزروں کی ایک وادی میں جو سمندر کے پورب میں ہے ان قوموں کا گوستان بنے گا، نیز عرصہ تک لاشیں گاڑتے رہیں گے تاکہ راہ صاف کریں۔ یہ وہ واقعہ ہے جو دارا کے حملہ یورپ میں پیش آیا، دارا کی فوج مملکت کی تمام اقوام سے مرکب تھی اس میں یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی وہ باسفورس عبور کر کے مشرقی یورپ میں پہنچ گیا تھا اور اگرچہ یونانیوں کی بے وفائی کی وجہ سے اسے واپس ہونا پڑا، لیکن اس لشکر کشی میں بے شمار سیتھین مارے گئے اور ان کی قوت عرصہ تک کے لیے مضمحل ہوگئی۔ مکاشافات یوحنا کا معمہ : باقی رہی وہ پیشین گوئی جو مکاشفات یوحنا میں ملتی ہے تو مکاشفات کے اکثر مقامات کی طرح اس مقام کی بھی کوئی جمتی ہوئی تفسیر شارحین انجیل نہ کرسکے۔ اس میں ایک ہزار برس کی مدت بتلائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مدت سے مقصود کون سی مدت ہے اور کب سے شروع ہوتی ہے؟ اگر حضرت مسیح سے شروع ہوتی ہو تو ظاہر ہے کہ دسویں صدی مسیحی میں کوئی ایسا واقعہ ظہور میں نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہزار برس سے مقصود وہ مدت ہو جو سقوط بابل سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس معاملہ سے پہلے بابل کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایک بات بن سکتی ہے۔ بابل کا سقوط چھٹی صدی قبل مسیح میں ہوا ہے اور چوتھی صدی مسیحی میں یورپ کے منگولین قبائل نے رومی مملکت پر حملے شروع کردیے ہیں۔ پس یاجوج ماجوج کا یہ خروج بابل کے ہزار برسر بعد ضرور ہوا۔ کتاب پیدائش کی تفریح : ماجوج کا ذکر تورات کی کتاب پیدائش میں بھی آیا ہے جہاں حضرت نوح کے تین لڑکوں سام، حام اور یافث سے اقوام عالم کا پیدا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ یافث کی نسبت لکھا ہے کہ اس سے جمر، ماجوج، مادی، یونان، توبال، مسک اور تیراس پیدا ہوئےْ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماجوج سے مقصود منگولین نسل ہے، کیونکہ قدیم مورخوں نے اسی تصریح کی بنا پر اہیں یافثی نسل قرار دیا ہے۔ علاوہ بریں اگر یہ صحیح ہے کہ کتاب پیدائش کا مواد قیل بابل کے زمانے میں تیار ہوا ہے تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس زمانہ میں ماجوجج اور مادیوں کو ہم نسل سمجھا جاتا تھا۔ یہ یاد رہے کہ اگرچہ دنیا عرصہ تک کتاب پیدائش کے اس بیان پر مطمئن رہی اور عام طور پر تسلیم کرلیا گیا کہ تمام قومیں حضرت نوح کے تین لڑکوں ہی سے پیدا ہوئی ہیں لیکن اب اس کی علمی قدرو قیمت یک قلم مشتبہ ہوگئی ہے اور اسے کوئی بھی اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے ایک تاریخی بیان کو دیکھنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک ایسا نوشتہ ہے جس میں ہمیں ٥٠٠ قبل مسیح کے یہودی تصورات نظر آجاتے ہیں۔ بلاشبہ ان میں ایک عنصر ان مقدس روایتوں کا بھی ہے جو قومی حافظی نے محفوظ رکھی تھیں لیکن ساتھ ہی بابلی اور آشوری روایتوں کا بھی ایک عنصر شامل ہوگیا ہے جو قیام بابل کی طویل مدت کا قدرتی نتیجہ تھا۔ سدیا جوج : اب ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ سائرس نے جو سد تعمیر کی تھی اس کا صحیح محل کیا تھا اور موجودہ زمانہ کے نقشہ میں اسے کہاں ڈھونڈنا چاہیے؟ دیوار دربند : بحر خزر کے مغربی ساحل پر ایک قدیم شہر در بند آباد ہے یہ ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں کا کیشیا کا سلسلہ کوہ ختم ہوتا اور بحر خزر سے مل جاتا ہے۔ اس مقام پر قدیم زمانے سے ایک عریض و طویل دیوار موجود ہے جو سمندر سے شروع ہو کر تقریبا تین میل تک مغرب میں چلی گئی ہے اور اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں کا کیشیا کا مشرقی حصہ بہت زیادہ بلند ہوگیا ہے۔ اس طرح اس دیوار نے ایک طرف بحر خزر کا ساحلی مقام بند کردیا تھا دوسری طرف پہاڑ کا تمام وہ حصہ بھی روک دیا تھا جو ڈھلوان ہونے کی وجہ سے قابل عبور ہوسکتا تھا۔ ساحل کی طرف یہ دیوار دہری ہے یعنی اگر آذربائجان سے ساحل ہوتے ہوئے آگے بڑھیں تو پہلے ایک دیوار ملتی ہے جو سمندر سے برابر مغرب کی طرف چلی گئی ہے، اس میں پہلے ایک دروازہ تھا، دروازہ سے جب گزرتے تھے تو شہر در بند ملتا تھا۔ اب یہ صورت باقی نہیں رہی۔ دربنددے آگے پھر اسی طرح کی ایک دیوار ملتی ہے لیکن یہ دہری دیوار صرف دو میل تک گئی ہے۔ اس کے بعد اکہری دیوار کا سلسلہ ہے، دونوں دیواریں جہاں جاکر ملی ہیں وہاں ایک قلعہ ہے۔ قلعہ تک پہنچ کر دونوں کا درمیانی فاصلہ سو گز سے زیادہ نہیں رہتا، لیکن ساحل کے پاس پانچ سو گز ہے اور اسی پانچ سو گز کے عرض میں دربند آباد ہے۔ اس دہری دیوار کو ایرانی قدیم سے دوبارہ کہتے آئے ہیں۔ یعنی دہرا سلسلہ۔ یہ قطعی ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے ساسانی عہد میں یہ مقام موجود تھا اور اسے دربند کہا جاتا تھا یعنی بند دروازہ، کیونکہ مقدسی، ہمدانی، مسعودی، اصطخری، یاقوت اور قزوینی وغیرہ تمام مسلمان مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے اسی نام سے اس کا ذکر کیا ہے اور سب لکھتے ہیں کہ ساسانی عہد میں یہ مقام شمالی سرحد کا سب سے زیادہ اہم مقام تھا۔ کیونکہ اسی راہ سے شمال کے حملہ آور ایران کی طرف بڑھ سکتے تھے۔ یہ ایرانی مملکت کی کنجی تھی، جس کے ہاتھ یہ کنجی آجاتی، وہ پوری مملکت کا مالک ہوجاتا، اسی لیے ضروری ہوا کہ اس کی حفاظت کا اس درجہ اہتمام کیا جائے۔ باب الابواب : مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں جب یہ علاقہ فتح کیا تو ساسانیوں کی طرح انہوں نے بھی اس مقام کی اہمیت محسوس کی، وہ اسے باب الابواب اور الباب کے نام سے پکارنے لگے۔ کیونکہ مملکت کے لیے یہی مقام شمال کا دروازہ تھا اور ان بہت سے دروازوں میں سے آخری دروازہ جو اس دیوار کے طول میں بنائے گئے تھے، بعضوں نے اسے باب الترک اور باب الخزر کے نام سے بھی پکارا ہے کیونکہ تاتاریوں اور تاتاری النسل کا کیشین قبیلوں کی آمد و رفت کی راہ یہی تھی۔ درہ داریال کی دیوار : اس مقام سے جب مغرب کی طرف کا کیشیا کے اندرونی حصوں میں اور آگے بڑھتے ہیں تو ایک اور مقام ملتا ہے جو درہ دریال (Darial Pass) کے نام شے مشہور ہے، اور موجودہ زمانہ کے نقشہ میں اس کا محل ولاڈی کیوکز (Vladi Kaukaz) اور ٹفلس کے درمیان دکھایا جاتا ہے۔ یہ کا کیشیا کے نہایت بلند حصوں میں سے ہو کر گزرا ہے اور دور تک دو بلند چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں بھی قدیم زمانے سے ایک دیوار موجود ہے اور ارمنی روایتوں میں اسے آہنی دروازہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نوشیراں کا انتساب : اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دیوار کس نے تعمیر کی تھی ؟ تمام عرب مورخوں کا بیان ہے کہ نوشیراں نے تعمیر کی تھی۔ چنانچہ مسعودی نے اس کی تعمیر کی بعض تفصیلات بھی بیان کی ہیں اور بعد کے تمام مصنف اسے نقل کرتے آئے ہیں۔ لیکن جب ہم قبل از اسلام عہد کے تاریخی نوشتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوشیراں کے عہد سے بہت پہلے یہاں ایک دیوار موجود تھی اور اس نے شمال سے جنوب کا راستہ روک رکھا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلی صدی مسیحی میں مشہور عبرانی مورخ جوزیفس اس کا ذکر کرتا ہے۔ پھر پروکوپیٹس (Procopius) چھٹی صدی مسیحی کے اوائل میں خود اپنا عینی مشاہدہ نقل کرتا ہے۔ کیونکہ ٥٢٨ مسیحی میں جب رومن جنرل بلی ساریوس (Belisarius) نے اس علاقہ پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا نوشیرواں کا زمانہ ٥٣١ م سے ٥٧٩ م تک تھا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ استحکامات اس کے بنائے ہوئے نہیں ہوسکتے۔ سکندر کا انتساب : اب یہاں ایک اور الجھاؤ پڑتا ہے، جو زیفس اور پروکوپیئس دونوں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ان استحکامات کا بانی سکندر تھا۔ حالانکہ سکندر کی فتوحات کا کوئی واقعہ تاریخ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اور کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس علاقہ میں آیا ہو یا یہاں کوئی جنگ کی ہو۔ زمانہ حال کے ایک مورخ مسٹر اے وی۔ لیمس جیکسن (پروفیسر کو لمبیا یونیورسٹی) نے اس علاقہ کی سیاحت کی ہے اور اس کے تفصیلی حالات اپنے سفر نامہ میں بیان کیے ہیں۔ وہ اس مشکل کا یہ حل تجویز کرتے ہیں کہ سکندر کے کسی جنرل نے یہ استحکامات تعمیر کیے ہوں گے۔ کم از کم درہ داریال کے استحکامات، بعد کو ساسانی فرمانرواؤں نے انہیں اور زیادہ وسیع اور مکمل کردیا۔ چونکہ ابتدائی تعمیر سکندر کے عہد کی تھی اس لیے سکندر کی طرف منسوب ہوگئی۔ لیکن جب سکندر کے تمام فوجی اعمال خود اس کے عہد میں اور خود اس کے ساتھیوں نے قلمبند کردیے ہیں اور ان میں کہیں بھی کا کیشیا کی لڑائی یا کا کیشیا کے استحکامات کی تعمیر کا اشارہ نہیں ملتا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس طرح کی توجیہات قابل اطمینان تسلیم کرلی جائیں؟ اسی طرح کے غیر معمولی استحکامات جبھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں جبکہ امن و حفاظت کی ضرورت نے انہیں ناگزیر کردیا ہو۔ لیکن سکندر کو اپنی تمام فتوحات میں اس طرح کی کوئی ضرورت پیش ہی نہیں آئی۔ اس کے زمانہ میں یہ علاقہ ایران کی قدیم شہنشاہی کے ماتحت تھا۔ اس نے شام کی راہ سے ایران پر حملہ کیا اور پھر وسط ایشیا ہوتا ہوا ہندوستان چلا گیا۔ ہندوستان سے واپسی پر ابھی بابل ہی میں تھا کہ انتقال کرگیا۔ ایسی حالت میں وہ کون سے حالات ہوسکتے ہیں جو کا کیشیا کے استحکامات پر اسے مجبور کرسکتے تھے؟ اور اگر پیش آئے تو کب؟ سکندر کا انتساب صحیح نہیں : اصل یہ ہے کہ یہ استحکامات سکندر سے دو سو برس پہلے سائرس نے تعمیر کیے تھے اور درہ داریال کی سد وہی سد ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ حسب ذیل وجوہ قرائن سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے : اولا : سائرس اور سکندر کی دو باتیں تاریخ کی قطعی روشنی میں آچکی ہیں۔ سائرس کے زمانے میں یہاں سے سیتھین قوم کے حملے ہور ہے تھے، سکندر کے زمانے میں کوئی حملہ آور نہیں تھا، سائرس کے لیے ضروری تھا کہ یہ وراہ روکے، سکندر کو کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سائرس کی نسبت ہیروڈوٹس اور زینوفن کی شہادت موجود ہے کہ فتح لیڈیا کے بعد سیتھین قوم کے سرحدی حملوں کی روک تھام کی، سکندر کی نسبت کوئی ایسی شہادت موجود نہیں، ان باتوں کے جمع کرنے سے جو تاریخی قرینہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ سد سائرس نے تعمیر کی ہوگی۔ نہ کہ سکندر کے حکم سے اس کے کسی افسر نے۔ ثانیا : پروکوپیس کے علاوہ قدیم مورخوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ثلا ٹسی ٹس (Tacitus) اور لیڈس (Lydus) نے، وہ ہمیں بتلاتے ہیں کہ رومی اسے کا سپین پورٹا کے نام سے پکارتے تھے، یعنی باب کا سپین۔ لیکن اسطرف کوئی اشارہ نہیں کرتے کہ یہ سکندر کے عہد کی تعمیر ہے۔ ثالثا : ایک مثبت شہادت بھی موجود ہے جو سائرس کی طرف ذہنن منتقل کردیتی ہے یہ ارمنی نوشتوں کی شہادت ہے جسے قرب محل کی وجہ سے مقامی شہادت تصور کرنا چاہیے۔ ارمنی زبان میں اس کا قدیم نام پھاک کورائی اور کا پان کورائی چلا آتا ہے۔ دونوں ناموں کا مطلب یہ ہے کہ کورکا درہ سوال یہ ہے کہ کور سے مقصود کیا ہے ؟ کیا یہ گوش کی بدلی ہوئی شکل نہیں ہے جو سائرس کا اصلی نام تھا جیسا کہ دارا کے کتبہ استخر میں پڑھا جاچکا ہے ؟ پروفیسر جیکسن اس ارمنی نام کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ کور کا تلفظ سور کرتے ہیں، اور پھر عربی کے ایک نام سول کا اسے ماخذ قرار دیتے ہیں، اس طرح لفظ کی حقیقت گم ہوجاتی ہے۔ اب ایک سوال اور غور طلب ہے، ذوالقرنین نے جو سد تعمیر کی تھی وہ درہ داریال کی سد ہے، یا دربند کی دیوار؟ یا دونوں؟ متذکرہ قرآن سد درہ داریال کی سد ہے نہ کہ دربند کی : قرآن میں ہے کہ ذوالقرنین دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچا، اس نے آہنی تختیوں سے کام لیا، اس نے درمیان کا حصہ پاٹ کے برابر کردی، اس نے پگھلا ہوا تانبا استعمال کیا، تعمیر کی یہ تمام خصوصیات کسی طرح بھی دربند کی دیوار پر صادق نہیں آتیں، یہ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کی دیوار ہے اور دو پہاڑی دیواروں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سمندر سے پہاڑ کے بلند حصے تک چلی گئی ہے۔ اس میں آہنی تختیوں اور پگھلے ہوئے تانبے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ پس یہ قطعی ہے کہ ذوالقرنین والی سد کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔ البتہ درہ داریال کا مقام ٹھیک ٹھیک قرآن کی تصریحات کے مطابق ہے۔ یہ دو پہاڑی چوٹیوں کے درمیان ہے اور جو سد تعمیر کی گئی ہے اس نے درمیان کی راہ بالکل مسدود کردی ہے۔ چونکہ اس کی تعمیر میں آہنی سلوں سے کام لیا گیا تھا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جارجیا میں آہنی دروازہ کا نام قدیم سے مشہور چلا آتا ہے، اسی کا ترجمہ ترکی میں وامرکپو مشہور ہوگیا۔ بہرحال ذوالقرنین کی اصلی سد یہی سد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد خود اس نے یاس کے جانشینوں نے یہ دیکھ کر کہ کا کیشیا کا مشرقی ڈھلوان بھی خطرہ سے خالی نہیں دربندہ کی تعمیر کردی ہو اور نوشیراں نے اسے اور مضبوط کیا ہو۔ یا ممکن ہے فی الحقیقت نوشیرواں ہی کی تعمیر ہو۔ دربندی کی دہری دیوار ١٧٩٦ ء، تک موجود تھی جس کی تصویر ایک روسی سیاح کی بنائی ہوئی ایچ والد (Eichwald) نے اپنی کتاب کو اکیسیس میں نقل کی ہے، لیکن ١٩٠٤ ء جب پروفیسر جیکسن نے اس کا معائنہ کیا تو گو آثار باقی تھے لیکن دیوار گرچکی تھی، البتہ اکہری دیوار اکثر حصوں میں اب تک باقی ہے۔ موجودہ زمانہ کے شارحیں تورات میں بھی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے کہ یاجوج ماجوج سے سیتھین قوم مراد تھی، لیکنن وہ حزقی ایل کی پیشین گوئی کا محل ان کا وہ حملہ قرار دیتے ہیں جو ہیروڈٹس کے قول کے مطابق ٦٣٠ قبل مسیح میں ہوا تھا۔ لیکن اس صورت میں یہ مشکل پیدا ہوجاتی ہے کہ حزقی ایل کی کتاب بابل کی اسیری کے زمانہ میں لکھی گئی ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی بخت نصر کے اسیروں میں سے تھے اور سیتھین حملہ اس سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ اس باب میں مزید تفصیلات کے لیے انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا اور جویش انسائیکلوپیڈیا میں لفظ (Gog) کا مقالہ دیکھنا چاہیے۔ ہم نے ذوالقرنین کے مبحث میں پوری تفصیل سے کام لیا ہے، کیونکہ زمانہ حال کے معترضین قرآن نے اس مقام کو سب سے زیادہ اپنے معاندانہ استہزا کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں ذوالقرنین کی کوئی تاریخ اصلیت نہیں ہے۔ یہ محض عرب یہودیوں کی ایک کہانی تھی جو پیغمبر اسلام نے اپنی خوش اعتقادی سے صحیح سمجھ لی اور نقل کردی۔ اس لیے ضروری تھا کہ یہ ایک مرتبہ یہ مسئلہ اس طرح صاف کردیا جائے کہ شک و تردد کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔ استدارک : ہم نے سائرس کے جس مجمسہ کا اوپر ذکر کیا ہے اجس سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ذوالقرنین اسی کا لقب تھا وہ قدیم سنگ تراشی کی صناعیوں کا ایک نہایت نادر نمونہ ہے اور موجودہ عہد کے تمام اہل نظر کا فیصلہ ہے کہ یونانی سنگ تراشی کے نمونوں کی صف میں اگر کوئی ایشیائی نمونہ رکھا جاسکتا ہے تو وہ یہی سائرس کا مرمری مجمسہ ہے۔ یہ ایران کے قدیم دار الحکومت استخر سے تقریبا پچاس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں دارا نے شاہی محل تعمیر کیا تھا۔ اب اس کا بقیہ صڑف چند مرمری ستون رہ گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک مربع ستون پر یہ مجسمہ ابھارا گیا تھا۔ سب سے پہلے ١٨٣٧ ء میں جیمس موریر (Morior) نے اس کی موجودگی سے علمی دنیا کو روشناس کیا، پھر چند سال بعد سر رابرٹ کیر پورٹر (Robert Ker Porter) نے اس مقام کی علمی پیمائش تحقیق کر کے مفصل معلومات بہم پہنچائیں اور اپنے سفرنامہ جارجیا وایران میں مجسمے کی وہ نقل کی بھی شائع کردی جو اس نے پنسل سے تیار کی تھی۔ اس وقت تک قدیم پہلوی زبان اور میخی خطوط کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تھا۔ تاہم یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ مجسمہ سائرس ہی کا ہے۔ بعد کی تحقیقات نے مزید تصدیق کردی۔ پھر ١٨٨٤ ء میں ڈی لافو (Dieulafoy) نے اپنی مشہور کتاب (L art antique en perse) میں اس کا اصلی عکس شائع کردیا ہے اور اس طرح مجسمہ کی اصلی نوعیت دنیا کے سامنے آگئی۔ اس وقت سے لے کر یہ مجمسہ تاریخ قدیم کے مباحث کا ایک عام موضوع رہا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ آج تک کسی یورپین مستشرق کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوا کہ اس کی نوعیت میں قرآن کے ذوالقرنین کی صریح اور قطعی تصدیق نمایاں ہوگئی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ تغافل مذہبی تعصب کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ان میں کافی تعداد ایسے اہل علم کی ہے جو یقینا ان تعصبات کی آلودگیوں سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں یہ تغافل علم و نظر کے عجائب مستثنیات میں سے ہے۔ اس مجسمہ میں سائرس کے سر پر دو سینگ نکلے ہوئے ہیں اور اطراف میں عقاب کے سے پر، سینگوں کا مطلب واضح ہوچکا ہے، لیکن عقاب کے سے پر کیوں بنائے گئے؟ اس کا جواب بھی ہمیں یسعیاہ نبی کے صحیفہ سے مل جاتا ہے، اس میں جہاں سائرس کے ظہور کی خبر دی گئی ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ : دیکھو میں ایک عقاب کو پورب سے بلاتا ہوں، اس شخص کو یاک دور کے ملک سے آکر میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ (باب : ١١: ٤٦) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دو سینگوں کا معاملہ دنیال نبی کا مکاشفہ سے تعلق رکھتا ہے اسی طرح عقاب کی تشبیہ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی میں آچکی ہے، خواہ یہ پیشین گوئیاں بعد میں بنائی گئی ہوں خواہ فی الحقیقت پیشتر کی ہوں لیکن یہ ظاہر ہوگیا کہ سائرس کے لیے دو سینگوں کا اور عقاب کا تخیل پیدا ہوچکا تھا اور ٹھیک ٹھیک یہی تخیل ہے جو اس مجسمہ میں متشکل ہوگیا ہے۔