قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا
تو کہہ ، اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس خوف سے کہ سب رحمتیں خرچ نہ ہوجائیں انہیں بند ہی کر رکھتے اور انسان دل کا تنگ ہے (ف ٢) ۔
برہان رحمت اور حیات اخروی : آیت (١٠٠) میں حیات اخروی پر رحمت الہی کی وسعت سے استدلال کیا ہے اس کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔ انسان کی زندگی کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے اللہ کی رحمت کا فیضان ہے۔ یہ رحمت جو چاہتی تھی کہ وجود ہو، بناؤ ہو، حسن ہو، کمال ہو، اور اس لیے سب کچھ ظہور میں آگیا۔ اچھا، اگر رحمت الہی کا یہ مقتضا ہوا کہ انسان کو زندگی ملی تو کیا اسی رحمت کا مقتضا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ زندگی صڑف اتنی ہی نہ ہو، اس بعد بھی ہو اور رحمت کا فیضان برابر جاری رہے ؟ اس کی رحمت ابدی ہے۔ پھر کیا اس کا فیضان دائمی نہ ہوگا؟ اگر دائمی ہونا چاہیے تو کیوں انسانی زندگی اس سے محروم رہ جائے؟ کیوں اس گوشہ میں کہ مخلوقات ارضی کا سب سے بلند گوشہ ہے، وہ ایک بہت ہی محدود اور حقیر حد سے آگے نہ بڑھے؟ انسان کی دنیوی زندگی کی مقدار کیا ہے ؟ محض چند گنے ہوئے دنوں کی زندگی۔ پھر کیا خدا کی رحمت کا فیضان اتنا ہی تھا کہ چار دن کی زندگی پیدا کردے، اور وہ ہمشیہ کے لیے ختم ہوجائے؟ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں دے سکتی تھی ؟ چنانچہ فرمایا (قل لو انتم تملکون خزائن رحمۃ ربی اذا لامسکتم خشیۃ الانفاق) ان منکروں سے کہہ دو اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو ضرور تم ہاتھ روک روک کے خرچ کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے۔ لیکن وہ تمہارے قبضہ میں نہیں ہیں، وہ اس کے قبضہ میں ہیں جس کی بخشش کی کوئی انتہا نہیں، جس کے خزانے کبھی ختم ہونے والے نہیں، جس کا فیضان دائمی اور لگاتار ہے۔ اس مقام کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر فاتحہ کے مبحث برہان فضیلت و رحمت کا مطالعہ کرلیا جائے۔ تفسیروں میں یہ چیز نہیں ملے گی۔