سورة الإسراء - آیت 53

وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور میرے بندوں سے کہہ کر وہ ہی بات بولیں جو بہتر ہے ، شیطان ان میں آپس میں لڑائی کرتا ہے ، بےشک شیطان آدمی کو صریح دشمن ہے ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (٥٣) میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ منکرین اسلام سے گفتگو کرو تو پسندیدہ طریقہ پر کرو۔ اس طرح کی باتیں نہ کہو جس سے باہم فتنہ و فساد پید اہو اور بجائے کھنچنے کے اور زیادہ لوگ متنفر ہوجائیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں نے بعض مشرکوں سے کہا تھا (انکم من اھل النار) تم جہنمی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا گیا کہ تعین کے ساتھ کسی انسان یا جماعت کو ایسا نہ کہیں خہ تم جہنمی ہو۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کس آدمی کا خاتمہ کس حال پر ہونے والا ہے ؟ بہت ممکن ہے جسے تم جہنمی کہہ رہے ہو، اسے ہدایت کی توفیق ملنے والی ہو اور اس کی جگہ جنتیوں میں ہو۔ بلاشبہ تم کہہ سکتے ہو۔ یہ بات حق ہے اور یہ حق نہیں، لیکن کسی خاص جماعت یا فرد کی نسبت حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ ضرور جہنمی ہے۔ ایسا کہنے کا کسی انسان کو حق نہیں۔ اس موقع پر سورۃ انعام کی یہ آیت بھی یاد کرلو کہ (ولا تسبوا الذین یدعون من اللہ فیبسوا اللہ عدوا بغیر علم کذلک زینا لکل امۃ عملھم ثم الی ربھم مرجعھم فینبئھم بما کانوا یعملون) اور یہ حکم بھی نہ بھولو کہ (وجادلھم بالتی ھی احسن) جو پچھلی سورت کے خاتمہ میں گزر چکا ہے۔ غور کرو۔ کس طرح قرآن قدم قدم پر یہ بات یاد دلاتارہتا ہے کہ فکر میں رواداری ہونی چاہیے۔ حکم میں احتیاط ہونی چاہیے۔ تم جس بات کو حق سمجھتے ہو اس پر جم جاؤ اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو مگر یہ نہ بھولو کہ انسان کی نجات و عدم نجات کی ٹھیکے داری تمہیں نہیں دے دی گئی ہے۔ کون نجات پانے والا ہے اور کس کے لیے بالآخر محرومی ہے ؟ اس کا علم خدا ہی کو ہے، تمہیں حق نہیں کہ اس طرح کے حکم لگاتے پھرو۔ علاوہ ازیں اگر ایک انسان غلط راہ پر چل رہا ہے تو تمہارے جہنمی کہہ دینے سے وہ جنتی نہیں بن جائے گا،۔ بلکہ بہت ممکن ہے اور زیادہ اپنی غلطی میں ضدی ہوجائے۔ پس جو کچھ بھی زبان سے نکالو، حسن و خوبی کی بات ہو، سختی و خشونت کی بات نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا (ان الشیطان ینزغ بینھم) شیطان چاہتا ہے لوگوں میں تفرقہ و فساد ڈالے۔ یعنی اس طرح کا طریق کلام تفرقہ و فساد پیدا کرتا ہے اور اصل مقصود کہ ہدایت و ارشاد ہے، مفقود ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا (ربکم اعلم بکم) یہ اللہ کا کام ہے کہ جسے چاہے نجات دے دے۔ جسے چاہے عذاب میں ڈالے (وما ارسلنک علیھم وکیلا) اے پیغمبر ! ہم نے تجھے لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے کہ لوگوں کی نجات و عدم نجات کے لیے ذمہ دار ہو۔ اور جب خود پیغمبر کو یہ منصب حاصل نہیں تو اور کسی کے لیے کب جائز ہوسکتا ہے کہ اپنے کو جنت و دوزخ کا داروغہ سمجھ لے۔