وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
اور تم اپنی زبانوں کی دروغ گوئی سے یوں نہ کہو ، کہ یہ حلال ہے ، اور یہ حرام ، کہ اللہ پر جھوٹ باندھو ، جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، ان کا چھٹکارا نہ ہوگا ۔
آیت (١١٦) میں فرمایا اپنی زبانوں کو کذب سرائی کے لیے بے لگام نہ چھوڑ دو کہ جس چیز کو چاہا اپنی رائے اور قیاس سے حرام ٹھہرا دیا، جس کو چاہا حلال کہہ دیا، حلال و حرام ٹھہرانے کا حق تو صرف وحی الہی کو ہے اور تمہارے پاس اپنے اوہام و آراء کے سوا کوئی وحی روشنی نہیں جو قرآن کے خلاف پیش کرسکو۔ یہ آیت ان لوگوں کے خلاف حجت قاطع ہے جو محض اپنے گھڑے ہوئے قیاسوں کی بنا پر جس چیز کو چاہتے ہیں حرام ٹھہرا دیتے ہیں۔ اگرچہ کوئی نس قطعی موجود نہ ہو، اصل قرآنی اس بارے میں یہ ہے (جیسا کہ سورۃ اعراف کی آیت (٣٢) میں تصریح گزر چکی ہے) کہ خدا کی تمام پیدا کی ہوئی چیزیں انسان کے برتنے کے لیے ہیں، الا وہ جو مضر ہیں اور وحی الہی نے ان سے روک دیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر چیز مباح ہے جب تک کہ شریعت اسے حرام نہ ٹھہرا دے۔ اور شریعت کے معنی قرآن و سنت کے نصوص قطعیہ ہیں نہ کہ کسی فرد یا گروہ کی مجرد رائے اور قیاس۔ مشرکین عرب اپنے اوہام و خرافات کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے۔ آیت (١٢٠) میں اس نسبت کی تغلیط کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان کی راہ وہی راہ تھی جس کی طرف پیغمبر اسلام دعوت دے رہے ہیں۔ ایک اور شبہ جو حلت و حرمت کے بارے میں کیا گیا تھا یہ تھا کہ سبت کے دن کا شکار یہودیوں پر حرام کردیا گیا تھا۔ پس کیوں قرآن اس سے نہیں روکتا؟ فرمایا یہودیوں کو جو اس سے روکا گیا تھا اس لیے نہیں کہ سبت کے دن حلال جانور شکار کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے بلکہ یہ ان کے اختلاف اور عدم اطاعت کی ایک سزا تھی۔ یعنی جب انہوں نے احکام سبت کی تعمیل نہ کی اور حیلے بہانے نکال کر شکار کرنے لگے تو سدا سبت کے شکار کا گوشت ممنوع قرار دیا گیا۔