سورة النحل - آیت 92

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور تم اس عورت کی مانند نہ ہو ، جس نے اپنا سوت بعد محنت ٹکڑے ٹکڑے کردیا کہ تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فساد کرنے کا حیلہ بناتے ہو ، محض اس لئے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے (مال میں) بڑھ جائے ، اللہ تمہیں اس سے آزماتا ہے ، اور اللہ قیامت کے دن تمہاری اختلافی باتوں کو تم سے کھول کر بیان کرے گا (ف ١) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہاں خصوصیت کے ساتھ جماعتی عہد و قرار کے احترام پر زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا (تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ) اگر تم نے ایک گروہ سے معاہدہ کیا ہے اور کل کو اس کا مخالف گروہ زیادہ طاقتور نظر آئے تو محض اس لیے کہ طاقتور کا ساتھ دینا تمہارے لیے زیادہ مفید ہوگا، نہ کہ کمزور کا، بد عہدی پر آمادہ ہوجاؤ۔ جب تم نے ایک گروہ سے قول و قرار کرلیا تو ہر حال میں اس کا پورا کرنا لازمی ہوگیا۔ خواہ وہ کمزور ہوگیا ہو، خواہ طاقتور، اگر اس کے مخالف طاقتور ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف جانے میں تمہارے لیے خطرات ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ خطرات برداشت کرو، کیونکہ تم عہد کرچکے ہو۔ پھر اس طرح کی بدعہدی کی مثال کیا ہے ؟ فرمایا (کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا) اس عورت کی سی ہے جس نے بڑی جانفشانی سے سوت کا تا اور پھر خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے برباد کردیا۔ یعنی جب ایک شخص یا ایک گروہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کی پختگی کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور ہر طرح دوسرے فریق کو یقین دلاتا ہے۔ پھر اگر ایک بات اتنی کوشش کے بعد پختہ کی گئی ہے، تو کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ جس نے کل پختہ کی تھی وہی آج اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ کر رکھ دے؟