وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارا رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں ۔
آیت (٢٤) سے آیت (٣٢) تک دو گروہوں کی دو متضاد حالتیں اور متضاد نتیجے بیان کیے ہیں : ایک گروہ منکروں کا ہے۔ ایک متقی انسانوں کا۔ منکروں کے نزدیک وحی الہی کی حقیقت کیا ہے ؟ (قالو اساطیر الاولین) یہ تو وہی اگلوں کے افسانے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں، لیکن جو لوگ متقی ہیں ان کے نزدیک اس کی حقیقت کیا ہے ؟ قالوا خیرا۔ سرتاسر خیر و برکت۔ پہلے گروہ پر جب موت آتی ہے تو اس حال میں آتی ہے کہ برائیوں میں سرگرم ہوتے ہیں : (تتوفھم الملائکۃ ظالمی انفسھم) لیکن دوسرے گروہ پر جب ااتی ہے تو وہ ویمان و یقین اور پاکی عمل کی روح سے خوشحالی ہوتے ہیں۔ (تتوفھم الملائکۃ طیبین) جزاء عمل کے لحاظ سے بھی دونوں کی حالتیں متضاد ہوئیں۔ پہلے گروہ کو کہا جائے گا : (ادخلوا ابواب جھنم) دوسرے سے کہا جائے گا : (ادخلوا الجنۃ) پہلے لیے خواری و عذاب کا پیام ہوا : (ان الخزی الیوم والسوء علی الکافرین) دوسرے کے لیے سلامتی کا پیام : (سلام علیکم ادخلوا الجنۃ) پہلے نے گھمنڈ کیا تھا تو گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہوا : (فلبئس مثوی المتکبرین) دوسرے نے تقوی کی روش اختیار کی تھی تو تقوی کی راہ چلنے والوں کا کیا ہی اچھا ٹھکانا ہوا۔ (ولنعم دار المتقین) پہلے لیے عذاب دائمی ہوا : (خالدین فیھا) دوسرے کے لیے نعیم و سرور کی زندگی دائمی ہوئی : (جنات عدن یدخلونھا) قرآن نے جابجا مشرکوں کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر شرک برائی ہے تو خدا کیوں ہمیں برائی کرنے دیتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا کہ اس کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کی جائے تو کبھی ایسا نہ ہوسکتا کہ ہم اور ہمارے آباؤاجداد ایسی بات کرسکتے۔ اگر وہ چاہے تو اب بھی ہمیں روک دے سکتا ہے، اس شور و ہنگامہ کی جگہ تو تم نے بپا کر رکھا ہے، کیوں خدا سے نہیں کہتے کہ ہمیں روک دے ؟ چنانچہ یہاں بھی آیت (٣٥) میں ان کا یہی قول نقل کیا ہے اور پھر اس کا جواب دیا ہے۔ فرمایا : یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو انہوں نے کہہ دی، پہلے بھی لوگ ایسی ہی روش اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن یہ روش گمراہی اور ہٹ دھرمی کی روشن ہے۔ اللہ کے رسول اس لیے نہیں آتے کہ لوگوں سے برائی کرنے کی طاقت سلب کرلیں اور انہیں ایسا بنا دیں کہ برائی کر ہی نہ سکیں۔ وہ تو پیام حق پہنچانے والے ہیں اور پیام پہنچانے والے کا کام صرف یہ ہے کہ صاف صاف اور روشن طریقہ پر پیام پہنچا دے۔ اب اسے ماننا یا نہ ماننا یہ سننے والوں کا کام ہے۔ پیام پہنچانے والا اس کے لیے ذمہ دار نہیں۔ اور جب اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ انسان کو کسی ایک حالت پر مجبور نہ کردیا جائے بلکہ ہر طرح کی حالت اختیار کرنے کی قدرت دی جائے تو اللہ کے رسولوں سے کیوں اس کی توقع کی جائے کہ لوگوں سے یہ قدرت سلب کرلیں؟ پھر فرمایا : دنیا کی کوئی امت نہیں جس میں اللہ کا رسول نہ آیا ہو اور اس نے توحید و خدا پرستی کی تعلیم نہ دی ہو، پھر کسی نے مانا اور اللہ نے فلاح و سعادت کی راہ اس پر کھول دی۔ کسی نے نہیں مانا اور گمراہی کی بات ثابت ہوگئی اور گمراہی کا نتیجہ پیش آگیا۔ پس اللہ کا قانون ہدایت و شقاوت ایسا ہی چلا آیا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو جبرا ہدیات یافتہ بنا دیا گیا ہو۔ یہ اعتقاد کہ انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہیں ہے جتنی دنیا میں بسر کرتا ہے بلکہ اس کے بعد بھی ایک نزدگی ہے اور اس زندگی میں جزائے عمل کا معاملہ پیش آنے والا ہے تمام مذاہب عالم کا عالمگیر اعتقاد ہے، لیکن مشرکین عرب اس سے بے خبر تھے اس لیے جب قرآن نے آخرت کی زندگی اور حشر اجساد کا اعلان کیا تو انہیں بڑی ہی عجیب بات معلوم ہوئی۔ وہ کہتے تھے جب آدمی مرگیا تو مرگیا پھر اس کے بعد زندگی کیسے ہوسکتی ہے ؟ چنانچہ قرآن نے جابجا ان کے اقوال نقل کیے ہیں اور جواب دیا ہے۔ یہاں آیت (٣٨) میں فرمایا : یہ لوگ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا لیکن نہیں جانتے کہ اللہ کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے یعنی اس کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور ضروری ہے کہ ظہور میں آئے۔ یہ اس کا وعدہ کیونکر ہے؟ اس طرح کہ خود دنیوی زندگی کی ہر بات کہہ رہی ہے کہ اسے ایسا کرنا ہے اور وہ ضرور کرے گاْ چنانچہ اس کے بعد فرمایا : (لیبین لھم الذی یختلفون فیہ ولیعلم الذین کفروا انھم کانوا کاذبین) تاکہ جن متقیوں کا انسان دنیوی زندگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا اور اختلاف پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا فیصلہ ہوجائے اور حقیقت سب کے سامنے آجائے، نیز اس لیے کہ گمراہ اور بدمعلی اپنی گمراہی و بدعملی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یعنی دنیوی زندگی میں پردوں کا نہ اٹھنا اور مشاہدہ حقیقت کا نہ ہونا بتلا رہا ہے کہ کوئی اور زندگی ضرور ہے جہاں بالآخر پردے اٹھیں گے۔ پس یہ صورت حال گویا خالق ہستی کی طرف سے ایک وعدہ ہوئی کہ اب نہیں لیکن آئندہ ایسا ہونے والا ہے۔ اور ضروری ہے کہ یہ وعدہ پورا ہو کر رہے۔