وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ
اور ہم نے تجھے سبع مثانی (سات چیزیں کہ دہرائی جاتی ہیں یعنی سورۃ فاتحہ) اور قرآن بڑے درجہ کا دیا ہے (ف ٢) ۔
آیت (٨٧) سے آخر سورت کا خاتمہ ہے اور اس کی تمام موعظت و ارشاد خلاصہ۔ خطاب اگرچہ پیغمبر اسلام سے ہے مگر فی الحقیقت مومنوں کی وہ ابتدائی جماعت مخاطب ہے جو مکہ میں ایمان لائی تھی اور مظلومی و بے سروسامانی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ فرمایا تم دیکھتے ہو کہ مخالفوں کے پاس ہر طرح کی دنیوی آسائشیں اور دنیوی طاقتیں ہیں۔ تمہارے پاس ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں، لیکن تم بھولتے ہو، تمہارے پاس بھی ایک چیز ہے جس سے تمہارے مخالف یک قلم تہی دست ہیں، اور وہ اللہ کا کلام ہے : (ولقد اتینک سبعا من المثانی والقران العظیم) اور اگر یہ نعمت تمہارے پاس موجود ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم مخالفوں کی موجودہ خوشحالیوں کو حسرت و رشک کی نظر سے دیکھو۔ یہی ایک نعمت تمہیں دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے سرفراز کردینے والی ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ یہاں (سبعا من المثانی) سے مقصود سورۃ فاتحہ ہے۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ سورۃ فاتحہ کا اس لیے ذکر کیا کہ وہ قرآن کی تمام تعلیم کا خلاصہ اور ایمان و عمل کی زندگی کا روزانہ دستور العمل ہے اور جس فرد اور جماعت کی زندگی ان سات آیتوں کی ورد و مدامت میں بسر ہورہی ہو ممکن نہیں کہ وہ دینی و دنیوی سعادتوں سے محروم رہے۔ نیز اس کے اس وصف پر زور دیا کہ وہ دہرائی جانے والی چیز ہے۔ یعنی ایک مومن زندگی کے لیے شب و روز کا ورد اسی میں ہے۔ وہ ہر روز اپنی نمازوں میں اور نماز کی ہر رکعت میں اسے دہراتا رہتا ہے۔ اس پر صبح آتی ہے تو اسی کی صدائیں چھیڑتی ہے، شام ہوتی ہے تو اسی کی صدائیں اٹھتی ہیں، اس کی دوپہر کا نغمہ بھی یہی ہوتا ہے اور اس کی راتوں کا ترانہ بھی اس کے سوا کوئی نہیں : جز نغمہ محبت سازم نوا نہ دارد !!! اس آیت سے سورۃ فاتحہ کی بڑی ہی خصوصیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن تشریح کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ یہ مبحث تفسیر فاتحہ میں گزر چکا ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی متحقق ہوگئی کہ سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور اس کے کلمات کی کوئی ایسی تقسیم صحیح نہیں ہوسکتی جس سے آیتوں کی یہ تعداد گھٹ جائے یا بڑھ جائے۔ چنانچہ جب اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس میں شامل ہے، یعنی اس کی پہلی آیت ہے یا پھر (صراط الذین انمعت علیم) اور (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) دو آیتیں ہیں، ایک آیت نہیں ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے سات آیتوں کی تعداد بنتی نہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت اس طرف گئی ہے کہ بسم اللہ اس کی پہلی آیت ہے۔ مفصل بحث البیان میں ملے گی۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سورۃ فاتحہ ہمیشہ سات وقفوں کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور ہر آیت کا آخری لفظ کسی قدر کھینچ کر ختم کرتے تھے جو اختتام صوت کی قدرت صورت ہے۔ ایسا نہیں کرتے تھے کہ صرف تین وقفوں میں پوری سورت ختم کردیں۔ یعنی الحمد سے لے کر یوم الدین تک ایک سانس میں، پھر اھدنا الصراط المستقیم سے لے کر ولا الضالین تک ایک سانس میں۔ جیسا کہ آج کل قرات کا عام طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔ راوی نے صرف اتنی ہی تصریح پر قناعت نہیں کی ہے بلکہ آیتیں پڑھ کر بتلا بھی دیا ہے کہ آپ اس طرح ہر آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے، اور اس طرح ہر آیت پر وقفہ کرتے تھے۔ یعنی الحمدللہ رب العالمین۔ (وقف) الرحمن الرحیم (وقف) مالک یوم الدین (وقف) ایاک نعبد وایاک نستعین (وقف) اھدنا الصراط المستقیم (وقف) اور فی الحقیقت سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا قدرتی اور صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے اور اس کی ہر آیت سائل کی زبان سے نکلی ہوئی طلب و الحاح کی ایک صد کا حکم رکھتی ہے۔ جب ایک سائل کسی کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور اس کی مدح و ثنا کر رکے حرف مطلب زبان پر لاتا ہے تو ایسا نہیں کرتا کہ ایک خطیب کی طرح مسلسل تقریر کرنا شروع رکدے اور ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ جائے بلکہ طلب و نیاز کے لہجہ میں ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک بات کہے گا۔ طلب و نیاز اور عجز و الحاض کی حالت اسے مہلت ہی نہ دے گی کہ ایک مرتبہ میں سب کچھ کہہ جائے مثلا کہے گا۔ آپ فیاض ہیں، آپ کریم ہیں ِ آپ کی جو دو سخا کی دھوم ہے، اگر آپ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں، اور ان میں سے ہر بول دوسرے بول سے ملا کر نہیں کہے گا الگ الگ کر رکے اور ٹھہر ٹھہر کر کہے گا۔ بلاشبہ ان میں سے ہر جملہ باعتبار مطلب کے دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ بات ایک ہی جملہ میں پوری نہیں ہوجاتی، لیکن وقف اتصال کے لیے صرف اتنی ہی بات کافی نہیں ہے۔ طریق خطاب وکلام کا اادا شناس جانتا ہے کہ زور کلام اور حسن خطاب کے لیے کہاں وقفہ کرنا چاہیے، کہاں نہیں کرناچا ہیے۔ یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالی جائے جہاں آنحضرت کا وقف کرنا روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ ان میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں متاخرین قرا کے نزدیک وقف نہیں ہونا چاہیے لیکن آنحضرت کا وقف کرنا ثابت ہے اور اگر مقام کی نوعیت پر غور کرو گے تو واضح ہوجائے گا کہ طریق کلام کا خطیبانہ اسلوب یہی چاہتا ہے کہ یہاں وقفہ ہو۔ بغیر اس کے زور کلام ابھرتا نہیں۔ اور گو آیت میں بات پوری نہیں ہوئی ہے لیکن موقع کا قدرتی اسلوب خطاب یہی ہے کہ وقفہ کیا جائے۔ اتصال صوت نہ ہو۔