وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ
اور ہم نے آسمان پر برج بنائے اور آسمان کو ناظرین کے لئے زینت دی ۔
یہاں آیت (١٦) میں، نیز دو اور مقامات میں بھی قرآن نے برج کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (تبارک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سراجا وقمرا منیرا) (والسماء ذات البروج) چونکہ بعد کو عربی زبان میں برج کا لفظ ستاروں کی ان بارہ فرضی اشکال کے لیے مستعمل ہوگیا ہے جو قدماء نے دورہ سمشی کے انضباط کے لیے قرار دی تھیں اس لیے سوال پیدا ہوا کہ قرآن میں بھی یہ لفظ اسی مصلطحہ معنی میں بولا گیا ہے اور مقصود بارہ برج ہیں؟ یا لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے اور مقصود بڑے بڑے روشن ستارے ہیں جو بحروبر کی ظلمتوں میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بارہ برجوں کی تقسیم سب سے پہلے اہل بابل نے کی، پھر سریانی اقوام ان سے آشنا ہوئیں اور بالآخر یونانیوں نے اختیار کرلیا۔ عربی زبان اپنی ابتدائی شکلوں میں عراق، مصر ور شام کی حکمراں زبان رہ چکی ہے اور ان ممالک کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات بھی معلوم و مسلم ہیں۔ پس اگر چاند کی منزلوں کی طرح سورج کے بارہ برجوں سے بھی عربی زبان آشنا ہوچکی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہ ہوگی لیکن اس میں شک نہیں کہ عرب جاہلیت کے کلام سے اس کا کوئی چبوت نہیں ملتا۔ عبدالرحمن بن عمر الصوفی الکواکب والصور میں ان تمام کواکب کے نام جمع کردیے ہیں جو عرب جاہلیت میں مشہور تھے اور جن کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے لیکن ان میں بارہ برجوں کی صورتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے اور تبریزی نے ابو العلاء کا قول نقل کیا ہے لم تکن العرب تعرفھا فی القدیم۔ پس زیادہ صاف بات یہی معلوم ہوی ہے کہ یہاں برج سے مقصود روشن کواب ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے ایسی ہی تفسیر منقول ہے اور ترجمہ میں ہم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اس آیت میں فرمایا : (وزیناھا للناظرین) ہم نے اس فضا کو جو تمہارے اوپر پھیلی ہوئی ہے اس طرح بنادیا کہ دیکھنے والوں کے لیے اس میں خوشنمائی پیدا ہوگئی یہ مقام بھی منجملہ ان مقامات کے ہے جہاں قرآن نے جمال فطرت سے استدلال کیا ہے۔ یعنی اس بات سے استدلال کیا ہے کہ کائنات ہستی کے تمام مظاہر اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ان میں حسن و جمال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ رحمت و فیضان کا کوئی ارادہ یہاں ضرور کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے حسن و خوبی کے ساتھ بنے اور اس میں روحوں کے لیے سرور اور نگاہوں کے لیے عیش و نشاط ہو۔ اگر ایک صاحب رحمت ہستی کی یہ کافر فرمائی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے ؟ نہیں، تمہاری فطرت کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ایسی ہستی کی کاری گری ہے جو حسن و جمال ہے اور جس نے چاہا ہے کہ حسن و جمال کا فیضان ہو۔ یہاں فرمایا کہ آسمون کو دیکھو، عربی میں سماء کے معنی بلندی کے ہیں، مکان کے لیے اس کی چھت اس کی سماء ہوتی ہے۔ پس یہ جو بلندی تمہیں نظر آرہی ہے کس طرح دیکھنے والوں کے لیے حسین و جمیل بنا دی گئی ہے ؟ چاندنی راتوں میں چاند کی شب افروزیاں دیکھو، اندھیری راتوں میں ستاروں کی جلوی ریزیوں کا نظارہ کرو۔ صبح جب اپنی ساری دلفریبیوں کے ساتھ آتی ہے، شام جب اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ چھپتی ہے، گرمیوں میں صاف و شفاف آشمان کا نکھرنا، بارش میں بادلوں کا ہر طرف سے امنڈنا شفق کی لالہ گونی، قوس قزح کی بوقلمونی، سورج کی زرافشانی، غرض کہ آسمان کا کون سے منظر ہے جس میں نگاہوں کے لیے زینت نہیں؟ جس میں دلوں کے لیے راحت و سکون نہیں؟ یہ استدلال مہمات دلائل قرآنی میں سے ہے اور ضروری ہے کہ تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث برہان فضل و رحمت کا مطالعہ کرلیا جائے۔