وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ
اور جو وعدے ہم نے ان سے کیے ہیں ان میں سے اگر کوئی وعدہ ہم تجھے دکھلائیں یا تجھے وفات دیں تو تیرا ذمہ صرف پیغام پہنچانا ہے اور ہمارے ذمہ حساب لینا ہے (ف ٢)
آیت (٤٠) سے آخر سورت تک سورت کے تمام مواعظ کا خلاصہ ہے۔ فرمایا تمہارے ذمہ جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ پیام حق پہنچا دو۔ محاسبہ اللہ کا کام ہے اور وہ حساب لے کر رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ جن جن باتوں کا وعدہ کیا گیا ہے تمہاری زندگی ہی میں ظاہر ہوجائیں۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے بعد ظہور میں آئیں۔ یہ بات کہ ان نتائج و عواقب کا ظہور تمہارے سامنے نہ ہوا۔ مواعید الہی کی صداقت پر کچھ اثر نہیں ڈال سکتی۔ یہ بات مختلف سورتوں میں بار بار کہی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود صرف یہی نہیں تھا کہ مستقبل کی خبر دے دی جائے بلکہ یہ حقیقت بھی واضح کرنی تھی کہ کوئی شخصیت کتنی ہی اہم ہو لیکن پھر شخصیت ہے اور کاروبار حق کا معاملہ اس کی موجودگی و عدم موجودگی پر موقوف نہیں، جو کچھ ہونا چاہیے اور جو کچھ ہونے والا ہے بہرحال ہو کر رہے گا۔ خواہ پیغمبر اپنی زندگی میں اس کا ظہور دیکھ لے یا نہ دیکھ سکے۔ پھر غور کرو، نتائج کا ظہور بھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح ہوا۔ جن باتوں کی خبر دی گئی تھی ان کا بڑا حصہ تو خود پیغمبر اسلام کی زندگی ہی میں ظاہر ہوگیا یعنی انہوں نے دنیا چھوڑنے سے پہلے تمام جزیرہ عرب کو حلقہ بگوش اسلام پایا۔ البتہ بعض باتوں کا ظہور آپ کے بعد ہوا۔ مثلا منافقوں کا استیصال، بیرونی فتوحات کا حصول اور خلافت ارضی کے وعدہ کی تکمیل۔