قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
بولا ۔ آج تم پر کچھ الزام نہیں ۔ خدا تمہیں معاف کرے ۔ اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ (ف ١)
حضرت یعقوب کے خاندان کا مصر پہنچنا، خواب کی تعبیر کا ظہور میں آنا اور سرگزشت کا خاتمہ۔ ادھر کاروان بشارت نے کوچ کیا اور ادھر کنعان میں حضرت یعقوب نے کہنا شروع کردیا : (انی لاجد ریح یوسف) مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ ولقد تھب لی الصبا من ارضھا۔۔۔۔ فیلذ مس ھبوبھا و یطیب اس سے معلوم ہوا کہ وحی الہی نے انہیں مطلع کردیا تھا کہ اب ایام فراق قریب الاختتام ہیں اور مژدہ وصال جلد پہنچنے والا ہے۔ جب بھائیوں نے حضرت یوسف کے آگے عجز و اعتراف کا سرجھکایا تو انہوں نے بلا تامل کہہ دیا (لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الرحمین) لیکن جب حضرت یعقوب سے دعائے مغفرت کے طلب گار ہوئے تو کہا : (سوف استغفر لکم ربی) میں عنقریب تمہارے لیے دعائے مغفرت کروں گا، یعنی طلب مغفرت کی دعا کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کردیا۔ یہ اختلاف حال غالبا اس بات کا نتیجہ ہے کہ بھائیوں نے جو ظلم کیا تھا وہ حضرت یوسف کی ذات خاص پر کیا تھا۔ اس لیے انہیں عفو و درگزر میں تامل نہیں ہوا۔ کیونکہ معاملہ خود ان کا معاملہ تھا، لیکن حضرت یعقوب کو تامل ہوا کیونکہ معاملہ صرف انہی کا نہیں بلکہ حضرت یوسف کا بھی تھا، پس فرمایا میں عنقریب ایسا کروں گا، یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ سب یکجا ہوں گے اور عفو و بخش کا آخری فیصلہ ہوجائے گا، پھر میری دعائیں ہوں گی اور تم ہوگے۔ تورات میں ہے کہ جب یوسف نے اپنے بھائیوں پر اپنے آپ کو ظاہر کردیا تو وہ گھبرا گئے لیکن یوسف نے انہیں تسلی دی اور کہا اپنے دلوں میں پریشان نہ ہو، یہ خدا کی مصلحت تھی کہ اس نے مجھے تم لوگوں سے پہلے اس سرزمین میں بھیج دیا، دو برس سے زمین پر کال ہے اور ابھی پانچ برس اور کال رہے گا، پس خدا نے مجھے اس لیے مصر کا حاکم بنا دیا کہ تمہاری اولاد باقی رہے اور تمہیں غموں سے نجات ملے، تم اب فورا میرے باپ کے پاس جاؤ اور اسے مع اپنے پورے گھرانے کے میرے پاس لے آؤ، میں اسے جشن کی زمین میں رکھوں گا۔ (پیدائش : ٤: ٤٥) تورات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب فرعون کو معلوم ہوا، یوسف کے بھائی آئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے یوسف کو کہا اپنے بھائیوں سے کہہ، اپنے باپ اور اپنے گھرانے کو میرے پاس لے آئیں، میں انہیں مصر کی ساری اچھی چیزیں دوں گا، نیز حکم دیا کہ ان کے لانے کے لیے مصر کے رتھ اپنے ساتھ لے جائیں اور جو اسباب وہاں چھوٹ جائے اس کا افسوس نہ کریں، مصر کی ساری خوشیاں ان کے لیے ہوں گی۔ چنانچہ کنعان سے حضرت یعقوب کا گھرانہ روانہ ہوگیا، تورات میں ہے کہ وہ سب ٦٧ تھے، اور اگر یوسف اور اس کے لڑکوں کو جو مصر میں پیدا ہوئے تھے ملا لیا جائے تو خاندان کی پوری تعداد ستر ہوجاتی ہے۔ (پیدائش : ٢٧: ٤٦) جب قافلہ مصر کے قریب پہنچا تو حضرت یوسف نے ان کا استقبال کیا، اس زمانہ میں مصر کا دار الحکومت رعمسیس تھا اور اسے جشن کا شہر کہتے تھے، کیونکہ سالانہ جشن وہیں ہوا کرتا تھا، پس یہ لوگ دار الحکومت میں آئے جہاں حضرت یوسف نے دربار منعقد کیا اور اپنے والدین کے لیے بلند مسند بچھائی۔ اب وہ وقت آگیا تھا جس کا مرقع سالہا سال پہلے حجرت یوسف نے خواب میں دیکھا تھا، جونہی حضرت یوسف دربار میں نمودار ہوئے تمام درباریوں نے مصر کے دستور کے مطابق تعظیم دی اور تعظیم یہ تھی کہ سجدے میں گر پڑے، جب حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں نے یہ دیکھا تو وہ بھی سجدے میں جھک گئے اور درباریوں کا ساتھ دیا، تب حضرت یوسف کو اپنے خواب کی بات یاد آگئیْ وہ بے اختیار پکار اٹھے : (ھذا تاویل رءیای من قبل قد جعلھا ربی حقا) انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج چاند اور گیارہ ستارے ان کے آگے جھکے ہوئے ہیں، تو سورج اور چاند ان کے والدین تھے اور گیارہ ستارے بھائی، آج یہ سب ان کی عظمت و جلال کے آگے جھک گئے اور وقت کی سب سے بڑی مملکت کے اوج و اقبال نے اپنا تخت ان کے لیے خالی کردیا۔ حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا یہ سجدہ تعظیم تھا، دنیا میں قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ حکمرانوں اور پیشواؤں کے آگے سجدے کرتے ہیں اور اسے تعظیم و احترام کی خاص علامت سمجھتے ہیں، مصر، بابل، ایران، ہندوستان اور سلاطین بنی اسرائیل سب کے یہاں تعظیم و احترام کا یہی طریقہ رائج تھا اور ہندوستان میں اب تک رائج ہے، لیکن قرآن نے توحید کے اعتقاد و عمل کا جو اعلی معیار قائم کیا وہ اس طرح کے رسول و اشکال کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے سجدہ کی ہر قسم اور ہر صورت صرف اللہ ہی کی عبادت کے لیے مخصوص کردی اور کسی حال میں جائز نہ رکھا کہ کسی دوسری ہستی کے لیے سر نیاز جھکایا جائے، اس نے صرف سجدہ ہی کو نہیں روکا جو پیشانی کے زمین پر رکھنے کا نام ہے بلکہ یہ بھی جائز نہ رکھا کہ کوئی انسان کسی دوسری ہستی کے آگے اپنا جسم دہرا کرے۔ ہر جھکاؤ، ہر خمیدگی، ہر رکوع، جو کسی قامت پر طاری ہوسکتا ہے وہ کہتا ہے صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور کوئی دوسری ہستی اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔ پس یاد رہے کہ یہاں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ محض ایک گزشتہ واقعہ کی حکایت ہے، اسلامی احکام کی تشریح نہیں ہے۔ اس طرح یہ سرگزشت جس خواب کے ذکر سے شروع ہوئی تھی اسی کی تعبیر کے ظہور پر ختم ہوگئی۔ حضرت یوسف نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا اور اس کے بعد جو دعا فرمائی وہ ان کی سیرت مطہرہ کا سب سے زیادہ اہم مقام ہے اور اس کی مختصر تشریح آگے آئے گی۔