سورة یوسف - آیت 76

فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پھر اس نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتے دیکھنے شروع کیے پھر اپنے بھائی کے شلیتے سے پیالہ نکالا ۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو داؤ بتلایا (ف ١ ) اور یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو قانون شاہی کے مطابق ہرگز نہیں لے سکتا تھا مگر جو اللہ کو منظور ہوتا ، جس کے ہم چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں ، اور ہر جاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہی وجہ ہے کہ آیت (٧٦) میں اس معاملہ کے ذکر کے بعد ہی فرمایا : (کذلک کدنا لیوسف) یوسف ملک کے قانون کے مطابق بنیماین کو نہیں روک سکتے تھے، اور اس نے روکنا چاہا بھی نہیں، اگرچہ دل اس کے لیے بے قرار تھا لیکن حکمت الہی نے ایک مخفی اور دقیق تدبیر پیدا کردی، جو انسان کے کیے نہیں ہوسکتی تھی، اور کید کے معنی مخفی اور دقیق تدبیر ہی کے ہیں۔ (ک) جھوٹوں کا قاعدہ ہے کوئی موقع کوئی بات ہو جھوٹ بولنے سے نہیں روکتے، اگر مدح کا موقع ہو تو جھوٹی مدح کردیں گے، مذمت کا موقع ہو تو کوئئی جھوٹا الزام لگا دیں گے، جب بنیماین کی خرجی میں سے پیالہ نکل آیا تو بھائیوں کا سوتیلے پن کا حسد جوش میں آگیا۔ جھٹ بول اٹھھے، اگر اس نے چوری کی تو کوئی عجیب بات نہیں۔ اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پس یہ بغض و حسد کی ایک بات تھی اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ واقعی کوئی ایسی بات ہوئی بھی تھی، قرآن نے خصوصیت کے ساتھ ان کی یہ بات اس لیے نقل کی کہ واضح ہوجائے، بغض و حسد انسان کو کیسی کیسی غلط بیانیوں کا عادی بنا دیتا ہے۔