وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ
اور ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت دینے آئے بولے سلام ، ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا سلام ‘ پھر دیر نہ کی کہ ایک تلا ہوا بچھڑا لے آیا ، (ف ٢) ۔
حضرت لوط کی دعوت اور باشندگان سدوم کی ہلاکت۔ تورات میں ہے کہ حضرت لوط حضرت ابراہیم کے بھتیجے اور حاران کے بیٹے تھے، یہ حضرت ابراہیم کے ساتھ شہر اور سے آئے اور سدوم میں مقیم ہوگئے جو دریائے یردن کی ترائی میں واقع تھا چونکہ سدوم کی ہلاکت کی خبر پہلے حضرت ابراہیم کو دی گئی تھی اس لیے سرگزشت کی ابتدا انہی کے ذکر سے ہوئی۔ فرشتوں نے دو باتوں کی خبر دی۔ ایک یہ کہ قوم لوط کی ہلاکت کا وقت آگیا، دوسری یہ کہ ساری کے بطن سے حضرت اسحاق کی پیدائش ہوگی اور ان سے حضرت یعقوب پیدا ہوں گے۔ ان دونوں باتوں میں بظاہر کوئی علاقہ نظر نہیں آتا، اس لیے خیال ہوتا ہے کہ کیوں دونوں کی خبر بیک وقت دی گئی، کیوں دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا؟ لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، دونوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط جب کسدیوں کے ملک سے آکر فلسطین میں مقیم ہوئے تو یہ ملک ان کے لیے اجنبیوں کا ملک تھا لیکن مشیت الہی کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ ایک دن اسی سرزمین پر ان کی نسل حکمرانی کرے گی، اس نسل کا ظہور کس سے ہوا؟ اسرائیل سے، یعنی حضرت یعقوب سے، وہ کس کے لڑکے تھے؟ حضرت اسحاق کے، پس فرشتوں نے بیک وقت دو باتوں کی خبر دی۔ ایک میں ایمان و نیک عملی کی کامرانیوں کا اعلان تھا۔ دوسری میں انکار و بدعملی کی ہلاکتوں کا۔ یعنی جس دن اس بات کی خبر دی گئی کہ سدوم اور عمورہ کا علاقہ بدعملیوں کی پاداش میں ہلاک ہونے والا ہے اسی دن اس کی بھی بشارت دے دی گئی کہ نیک عملی کے نتائج ایک نئی نسل تیار کر رہے ہیں اور وہ عنقریب اس تمام ملک پر حکمرانی کرنے والی ہے۔ پھر معاملہ ایک دوسرا پہلو بھی ہے، سدوم اور عمورہ کا علاقہ فلسطین کا سب سے زیادہ شاداب علاقہ تھا۔ اور معلوم ہے کہ سارہ تمام عمر اولاد کی تمنائیں کرتے کرتے بالآخر مایوس ہوچکی تھیں، پس قدرت الہی نے بیک وقت دنوں کرشمے دکھا دیئے۔ جو زمین سب سے زیادہ شاداب ہے وہ بدعملیوں کی پاداش میں ایسی اجڑے گی کہ پھر کبھی سرسبز و شاداب نہ ہوسکے گی۔ جو شجر امید بالکل سوکھ چکا ہے وہ اچانک اس طرح سرسبز ہوجائے گا کہ صدیوں تک اس کی شاخیں بار آور رہیں گی۔ چناندہ سدوم اور عمورہ کا علاقہ آتش فشاں مادہ کے انجفار سے ایسا بنجر ہوا کہ آج تک بنجر ہے اور بشارت پر پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت اسحاق کی پیدائش ظہور میں آگئی اور پھر ان کی نسل روز بروز بڑھتی اور پھیلتی گئی۔ حضرت ابراہیم کی ایک بیوی حضرت سارہ تھیں ایک حضرت ہاجرہ۔ ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوئے لیکن حضرت سارہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، یہاں تک کہ وہ مایوس ہوگئیں۔ پھر مایوسی کے بعد یہ بشارت ملی اور حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔ تورات (پیدائش : ٢٣: ١٩) میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے بار بار التجائیں کیں کہ عذاب ٹل جائے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سدوم میں چند آدمی ہی نیک کردار باقی رہ گئے ہوں۔ لیکن اللہ نے فرمایا : وہاں دس آدمی بھی ایسے نہ رہے جو نیک کردار ہوں، ہوسکتا ہے کہ آیت (٧٤) میں (یجادلنا) سے مقصود یہی بات ہو۔ یا اسی طرح کی کوئی بات۔ بہرحال اللہ نے ان کی اس سعی کی مدح کی کہ یہ ان کے حلم اور رحم و شفقت کا نتیجہ تھی۔ پھر واضح کردیا کہ بات ٹلنے والی نہیں تھی۔ وقت آپہنچا تھا۔ حضرت لوط کو مہمانوں کے آنے سے اس لیے پریشانی ہوئی کہ وہ جانتے تھے شہر کے باشندے ضرور حملہ آور ہوں گے۔ کیونکہ ان کا قاعدہ تھا جب کبھی کوئی اجنبی مسافر آپھنستا تو اس پر حملہ کردیتے اور سمجھتے ہمارے خبیثانہ افعال کے لیے ایک شکار ہاتھ آگیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اعراف میں حضرت لوط کے وعظ و نصیحت اور قوم کی سرکشی کا حال گزر چکا ہے۔ (آیت ٨٠) یہاں اس میں تفصیل کی کہ عذاب کا ظہور کن حالات میں ہوا تھا۔ بہرحال نتیجہ یہی نکلا کہ قوم ہلاک ہوئی اور حضرت لوط اور ان کے ساتھیوں پر کوئی آنچ نہ آئی۔