قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ
کہا اے قوم بھلا دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے حجت پر ہوں ، اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت بخشی تو اللہ سے کون میری مدد کریگا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ‘ سو تم سوائے خسارہ کے میرا کچھ نہیں بڑھاتے (ف ١) ۔
حضرت صالح نے کہا تم غور نہیں کرتے کہ اگر ایک شخص پر اللہ نے علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہو اور وہ دیکھ رہا ہو کہ سچائی وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہے تو پھر کیا محض لوگوں کے پاس خاطر سے اس کا اظہار نہ کرے؟ اچھا بتلاؤ اگر وہ حکم حق سے سرتابی کرے تو کون ہے جو خدا کے مواخذہ سے اسے بچا لے گا؟ اگر میں محض اس خیال سے کہ تمہاری امیدوں کو ٹھیس نہ لگے سچائی کا اعلان نہ کروں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دوں۔ بہرحال انہوں نے سرکشی کی، نتیجہ یہ نکلا کہ مومنوں نے نجات پائی۔ سرکش ہلاکت ہوئے۔ اونٹنی کے معاملہ کی تشریح اعراف (٧٣) کے نوٹ میں گزر چکی ہے۔ حضرت ہود اور حضرت صالح کی سرگزشتوں میں اختصار ملحوظ رہا، کیونکہ ان دونوں کا ظہور عرب ہی میں ہوا تھا، اور مخاطبینن ان سے ناآشنا نہ تھے۔