إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ
جب اس نے تم پر اونگھ ڈالی ، جو اس کی طرف سے پیغام امن تھی ، اور آسمان سے مینہ برسایا ‘ تاکہ اس پانی سے تمہیں پاک کرے ‘ اور شیطانی نجاست تم سے دفع کرے ، اور تمہارے دلوں پر محکم گرہ لگائے ، اور تمہارے قدم ثابت کرے (ف ٢) ۔
بعض اوقات قدرتی حوادث کا ایک معمولی سا واقعہ بھی فتح و شکست کا فیصلہ کردیتا ہے۔ جنگ واٹرلو کے تمام مورخین متفق ہیں کہ اگر ١٧ اور ١٨ جون ١٨١٥ ء کی درمیانی رات میں بارش نہ ہوئی ہوتی تو یورپ کا نقشہ بدل گیا ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں نپولین کو زمین خشک ہونے کا بارہ بجے تک انتظار نہ کرنا پڑتا۔ سویرے ہی لڑائی شروع کردیتا، نتیجہ یہ نکلتا کہ بلوشر کے پہنچنے سے پہلے ویلنگٹن کو شکست ہوجاتی۔ واٹر لو میں اگر بارش نہ ہوئی ہوتی تو یورپ کا سیاسی نقشہ بدل جاتا، لیکن اگر بدر میں نہ ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا؟ تمام کرہ ارضی کی ہداتی و سعادت کا نقشہ الٹ جاتا۔ اسی طرف پیغبر اسلام نے اپنی دعا میں اشارہ کیا تھا : اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ فلا تعبد فی الارض۔ خدایا ! اگر خدام حق کی یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو کرہ ارضی میں تیرا سچا عبادت گزار کوئی نہیں رہے گا۔ آیت (١٥) سے جو اوپر گزر چکی ہے معلوم ہوا کہ اگر دشمن جمع ہو کر مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں تو لڑائی سے بھاگنا مسلمانوں کے لیے سخت گناہ کی بات ہے اور اس کے لیے بڑی ہی سخت وعید آئی ہے۔ لیکن اگر دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اسی سورت کی آیت (٦٦) سے معلوم ہوا کہ میدان جنگ میں ایک مسلمان کو کم از کم دو دشمنوں پر بھاری ہونا چاہیے۔ پس اگر دشمن دوگنے سے بھی زیادہ ہوں اور مسلمان لڑنے میں مصلحت نہ سمجھیں تو ایسا کرسکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی عزیمت یہی ہوگی کہ خدا پر بھروسہ رکھیں اور لڑنے سے منہ نہ موڑیں۔ اس حکم کو خاص جنگ بدر کے لیے سمجھنا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ کہ خصوص سبب کا اور آیت میں یومئذ سے مراد لڑائی کا وقت ہے، نہ کہ جنگ بدر کا دن۔