وَإِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةٌ وَظَنُّوا أَنَّهُ وَاقِعٌ بِهِمْ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور جب ہم نے جڑ سے اکھاڑ کے پہاڑ ان پر اٹھایا تھا ، جیسے کہ سائبان ہوتا ہے ، اور وہ سمجھتے تھے کہ وہ ان پر گر پڑے گا (ہم نے کہا تھا) کہ جو ہم نے تم کو دیا ہے اسے زور سے پکڑو ، اور جو اس میں لکھا ہے اسے یاد کرتے رہو) شاید تم ڈرو (ف ١) ۔
(١) عربی میں نتقنا کے معنی رفعان کے بھی ہوسکتے ہیں اور زلزلنا کے بھی۔ نتق السقاء اذا ھزہ و نفضہ لیخرج منہ الزبدہ۔ ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔ چونکہ آیت (١٧١) میں اس عہد کا ذکر کیا تھا جو دین کے اتباع کا بنی اسرائیل سے لیا تھا اس لیے یہاں واضح کردیا گیا کہ پیغمبروں کی ہدایت کوئی نیا پیام انسان کو نہیں دیتی اور وہ اسی اعتقاد کی تجدید کرتی ہے جو اول دن سے فطرت انسانی میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ پچھلی دعوتوں کا ذکر ختم ہوگیا۔ اب یہاں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جس طرح پچھلے عہدوں کی مفسد جماعتوں نے آخر تک سچائی کا مقابلہ کیا اسی طرح عرب کے مفسدین بھی کر رہے ہیں اور کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ پس ان کی شرارتوں سے پریشان خاطر نہ ہو۔ نتیجہ کا انتظار کرو۔