سورة الاعراف - آیت 85

وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور مدین کی طرف ہم نے انکا بھائی شعیب بھیجا ، اس نے کہا اسے قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، تمہارے رب سے تمہاری طرف دلیل آچکی ہے ، سو تم پیمانہ وترازو پوری رکھو ، اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ، اور زمین کی درستی کے بعد زمین میں فساد نہ کرو ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے ، اگر تم مومن ہو (ف ١) ۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١) (ز) مدین کسی بستی کا نام نہیں۔ ایک قبیلہ کا نام تھا جو زیرہ نمائے سینا میں عرب سے متقصل آباد تھا، اسی میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا۔ (ح) قرآن نے حضرت شعیب کی کوئی ایسی نشانی بیان نہیں کی جیسی دوسرے پیغمبروں کی بیان کی ہے اور جو متکلمین کی اصطلاح میں معجزہ کے لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن حضرت شعیب کی زبانی نقل کرتا ہے کہ واضح دلیل آچکی یہ دلیل واضح کیا تھی؟ حضرت شعیب کی تعلیم تھی جو راست بازی و عدالت کی راہ دکھاتی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم بجائے خود دلیل بینہ اور حجت ہے، اور ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری نشانی اور مصطلحہ معجزہ بھی ہو۔ (ط) ماپ تول کی درستی اور یہ اصل کہ خریدوفروخت میں جو جس کا حق ہو اسے پورا ملنا چاہیے انسانی معیشت کی وہ بنیادی صداقت ہے جس کی ہمیشہ نبیوں نے تلقین کی۔ (ی) حضرت شعیب نے کہا کم از کم صبر کرو اور نتیجہ دیکھ لو، لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔