بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (ف ١)
بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) سورت کی اہمیت اور خصوصیات یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی۔ چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے ہی لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) سورت کی اہمیت اور خصوصیات یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی۔ چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے ہی لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ (87:15) اے پیغمبر ! یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائی اور قرآن عظیم۔ احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس آیت میں ” سات دہرائی جانے والی چیزوں“ سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو سبع المثانی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کیا ہے کہ الحمد للہ رب العلمین، ھی السبع المثانی والقرآن العظیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک، ترمذی اور حاکم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ کی تلقین کی اور یہی الفاظ ارشاد فرمائے۔ اسی طرح طربی نے حضرت عمر حضرت علی، حضرت ابن عباس اور ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) وغیرہم سے روایت کی ہے کہ السبع المثانی فاتحۃ الکتاب، اگرچہ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے لیکن ابن عباس کی حسن ہے۔ ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایات جمع کردی ہیں (شرح کتاب التفسیر جلد 8۔ صفحہ 120۔ طبع اول)۔ احادیث و آثار میں اس سورت کے دوسرے نام بھی آئے ہیں جن سے اس کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ام القرآن، الکافیہ، الکنز، اساس القرآن۔ (صحیح بخاری، موطا امام مالک، ابوداود، ابن ماجہ اور مسند احمد میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایات موجود ہیں۔ ) عربی میں ” ام“ کا اطلاق تمام ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سی چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ چنانچہ سر کے درمیانی حصے کو ام الراس کہتے ہیں کیونکہ وہ دماغ کا مرکز ہے۔ فوج کے جھنڈے کو ام کہتے ہیں کیونکہ تمام فوج اسی کے نیچے جمع ہوتی ہے۔ مکہ کو ام القری کہتے تھے کیونکہ خانہ کعبہ اور حج کی وجہ سے عرب کی تمام آبادیوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ پس اس سورت کو ام القرآن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔ اساس القرآن کے معنی ہیں قرآن کی بنیاد۔ الکافیہ کے معنی ہیں ایسی چیز جو کفایت کرنے والی ہو، الکنز خزانہ کو کہتے ہیں۔ علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو اس سورت کی تلقین کی اور فرمایا ” اس کے مثل کوئی سورت نہیں“۔ (ابو سعید بن معلی کی روایت میں جس کی تخریج پچھلے حاشیہ میں گزر چکی ہے، اسے اعظم سورۃ فی القرآن فرمایا ہے، اور مسند کی روایت ابن جابر میں ” اخیر“ کا لفظ ہے) سورۃ ٔ فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے :۔ چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں سورۃ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کرلے جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کرلے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔ علاوہ ازیں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیریہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جزوہ قرار دیا گیا ہے تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادھھا خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بآسانی ذہن نشین کرلے اور پھر ہمیشہ اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، خدا پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نصب العین ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے سبعاً من المثانی کہہ کر اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کردیا۔ یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت پوشیدہ ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی نادان اور ان پڑھ ہو لیکن ان چار سطروں کا یاد کرلینا اور ان کا سیدھا سادھا مطلب سمجھ لینا اس کے لیے کچھ دشوار نہیں ہوسکتا۔ اگر ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے کچھ نہ پڑھ سکا، جب بھی اس نے دین حق کا بنیادی سبق حاصل کرلیا یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے اس سورت کا سیکھنا اور پڑھنا ناگزیر ہوا اور نماز کی دعا اس کے سوا کوئی نہ ہوسکی کہ ( لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب) (صحیحین) اور اسی لیے صحابہ کرام (رض) اسے سورۃ الصلوۃ کے نام سے پکارتے تھے۔ یعنی وہ سورت جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے جس قدر پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہوگا لیکن اس سے کم کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ دین حق کا ماحصل :۔ دین حق کا تمام تر ماحصل کیا ہے؟ جس قدر غور کیا جائے گا ان چار باتوں سے باہر کوئی بات دکھائی نہ دے گی۔ (1) خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک تصور، اس لیے کہ انسان کو خدا پرستی کی راہ میں جس قدر ٹھوکریں لگی ہیں صفات ہی کے تصور میں لگی ہیں۔ (2) قانون مجازات کا اعتقاد۔ یعنی جس طرح دنیا میں ہر چیز کا ایک خاصہ اور قدرتی تاثیر ہے اسی طرح انسانی اعمال کے بھی معنوی خواص اور نتائج ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور برے کا برائی۔ (3) معاد کا یقین۔ یعنی انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کے بعد بھی زندگی ہے اور جزا کا معاملہ پیش آنے والا ہے (4) فلاح و سعادت کی راہ اور اس کی پہچان۔ سورۂ فاتحۃ کا اسلوب :۔ اب غور کرو کہ ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبی کے ساتھ جمع کردیا گیا ہے ! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں، دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادھا بیان ہے۔ کسی طرح کا پیچ و خم نہیں۔ کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے۔ اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشین بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادھی اور دلنشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آجائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ وہ اس طرح قبول کرلے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے اب غور کرو کہ جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادھی باتیں اور کیا ہوسکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کیا ہوسکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں۔ ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے اگرچہ وہ اپنی جہالت و غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ کر چلنے کی طلبگاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم بار بار یہ سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ جب سامنے آجاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔ ہر کس نشناسندۂ راز ست، وگرنہ ::: اینہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام ست ! دنیا میں جب کبھی وحیٔ الٰہی کی ہدایت نمودار ہوئی تو اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جاسکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورۃ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ، ہر فکر، ہر جذبہ، اپنی حقیقی شکل و نوعیت میں نمودار ہوگیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے اس لیے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے ! دین حق کی مہمات :۔ پھر دیکھو اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادھی دعا ہے لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہوگیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں ! (1) خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورۂ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کردیا۔ (الحمد للہ رب العالمین) اس کی ابتدا حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے حمد ثنائے جمیل کو کہتے ہیں یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو، ثنائے جمیل اسی کی کی جاسکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس حمد کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہوسکتا۔ جو ذات محمود ہوگی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔ پھر حمد کے بعد خدا کی عالمگیر ربوبیت، رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقا کے لیے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کردیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آسکتی ہیں۔ (2) ” رب العالمین“ میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک اور ہر گوشہ وجود کے لیے ہے۔ اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کردیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہوگئی تھیں۔ اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہے کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔ (3) ” ملک یوم الدین“ میں ” الدین“ کا لفظ جزا کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو ” دین“ کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ جزا انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو۔ کیونکہ ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ (4) ربوبیت اور رحمت کے بعد ” ملک یوم الدین“ کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکارا کردی کہ اگر کائنات میں صفاتِ رحمت و جمال کے ساتھ قہر وجلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عاد ہے اور اسکی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کردیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔ (5) عبادت کے لیے یہ نہیں کہا کہ نعبدک، بلکہ کہا ” ایاک نعبد“ یعنی یہ نہیں کہا کہ ” تیری عبادت کرتے ہیں“۔ بلکہ حصر کے ساتھ کہا ” صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں“۔ اور پھر اس کے ساتھ ” ایاک نستعین“ کہہ کر استعانت کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کردیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کردیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہوگئیں ! (6) سعادت و فلاح کی راہ کو ” صراط المستقیم“ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس کی اس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہشمند نہ ہو۔ (7) پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادھی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بتا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونے کی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کردیتی ہے۔ یعنی وہ راہ جوانعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک، کوئی قو، کوئی زمانہ کوئی فرد ہو، لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہوسکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے صدائے حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہئے؟ یہ گویا خدا پرستی کے فکر و وجدان کا سرجوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔