قَالَ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ فِي النَّارِ ۖ كُلَّمَا دَخَلَتْ أُمَّةٌ لَّعَنَتْ أُخْتَهَا ۖ حَتَّىٰ إِذَا ادَّارَكُوا فِيهَا جَمِيعًا قَالَتْ أُخْرَاهُمْ لِأُولَاهُمْ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ أَضَلُّونَا فَآتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ۖ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلَٰكِن لَّا تَعْلَمُونَ
اللہ کہے گا جنوں اور آدمیوں کی امتوں کو سمیت جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں ، تم بھی آگ میں داخل ہو جب ایک امت داخل ہوگی تو دوسری کو لعنت کریگی ، یہاں تک کہ جب سب دوزخ میں رل مل چکیں گے ، تو پچھلے پہلوں کے حق میں کہیں گے ، اے ہمارے رب ہمیں انہوں نے گمراہ کیا تھا سو انہیں آگ کا دونا عذاب دے ، وہ کہے گا سب کے لئے دونا ہے مگر تم نہیں جانتے ۔ (ف ٢) ۔
(ف ٢) یہ عجیب بات ہے جب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے تو یہ چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کی گمراہی میں بہت بڑا حصہ ہے لیا ہے ، اس بری طرح پھنسیں ، اور ان کو یہ عذاب میں دکھ اٹھاتے ہوئے دیکھیں ، اس لئے کہیں گے ، یا اللہ ، ان لوگوں نے ہمیں دینا میں گمراہ کیا تھا ان کو دگنا عذاب دے ، اللہ فرمائے گا سب عذاب بھگت رہے ہیں مگر تمہیں علم نہیں کمبختو ! اگر دنیا میں تمہیں اپنی گمراہی کا احساس ہوتا ، تو ایک بات بھی تھی اس عذاب الیم سے بچ جاتے ، اب کیا فائدہ جو پڑے جھلس رہے ہو ، یہ نہایت خوفناک منظر ہوگا ، وہ لوگ جن سے دنیا میں عقیدت تھی ، جنہیں یہ لوگ خدا اور دیوتا سمجھتے تھے ، جن کی پرستش کرتے تھے ، جو ان کے معبود تھے ، آج ان سے کلی انقطاع کا اعلان ہو رہا ہے ، بلکہ ان کے عذاب کی سفارش کی جا رہی ہے ۔ اور کہا جا رہا ہے ، یہ ملعون ہیں ، یہ لوگ دنیا میں ہماری گمراہی کا باعث تھے ۔ حل لغات : ادارکوا : اصل میں تدارکوا تھا ، درک کے معنی ہیں نیچے آ یہ درج صعود کے لئے ہے اور درک ہبوط کے لئے چنانچہ جنت کے لئے درجات استعمال ہوتا ہے ، اور جہنم کے لئے درکات : ان اللمنافقین فی الدرک الاسفل من النار ۔