سورة الاعراف - آیت 11

وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اور ہم نے تمہیں پیدا کیا ، پھر تمہیں صورت دی پھر ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، سو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس سجدہ کرنے والوں میں نہ تھا ۔(ف ١)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

نوع انسانی کی عزت وحرمت : (ف1)﴿ خَلَقْنَاكُمْ﴾ اور ﴿ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ﴾ میں تمام انسانوں کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے بعد صرف آدم (علیہ السلام) کا ذکر ، اس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ گو فرشتے آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکے ، مگر مقصود نوع انسانی کا اعزاز تھا ، اور یہ بتانا تھا کہ آدم (علیہ السلام) کی اس عزت افزائی میں تمام بنی آدم شریک وسہیم ہیں یعنی انسان اس درجہ معزز ومفتخر ہے ، کہ کائنات کا حصہ اعلی کھلے بندوں اس کی فضیلت وتمجید کا اعتراف کرتا ہے ۔ شیطان کی نافرمانی کے معنی یہ ہیں کہ جو قومیں تمہارے سامنے نہ جھکیں انہیں مسخر کرنے کی خود کوشش کرو ، آدم (علیہ السلام) اور شیطان کے قصہ کو بار بار مختلف اسالیب میں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک طرف تو انسان اپنے مرتبہ ومقام کو سمجھے دوسری جانب اسے یہ معلوم ہو ، کہ حق وباطل میں ہمیشہ سے آویزش چلی آتی ہے اور مومن وہ ہے جو بالکل شیطان کی پیروی نہ کرے ۔