سورة البقرة - آیت 87

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی (ف ١) اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور عیسیٰ (علیہ السلام) ، مریم علیہا السلام کے بیٹے کو کھلے نشان (معجزے) دیئے اور ہم نے اس کو روح القدس (پاک روح) سے مدد دی ، پھر بھلا جب بھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی چیز لایا ، جسے تمہارے جی نہ چاہتے تھے تو تم گھمنڈ کرنے لگے پس ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو تم قتل کرتے ہو ،

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

انبیاء علیہم السلام عوام کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت نامی کتاب دی گئی جو الواح کی صورت میں تھی خط مسماری کا ان دنوں رواج تھا ، اس لئے کتابیں عموما پتھروں پر کندہ ہوتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام آئے ، تاکہ اللہ کے پیغام کو پوری وسعت وقوت کے ساتھ بندوں تک پہنچا سکیں ، مگر بنی اسرائیل برابر جہل وجمود کے تاریک گڑھوں میں گرے رہے ، زیادہ سے زیادہ چند ظاہری رسوم ان کا متاع تدین تھا روح اور مفر سے محروم تھے ، اس لئے فسق وفجور کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے مقرب ہی سمجھتے رہے ، بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو بھیجا ایک کتاب مقدس دے کر جو ان کے تاریک دلوں میں اجالا کر دے ، جو ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور جو ان کے اخلاق پاکیزہ تر بنا دے ، روح کا اطلاق قرآن میں کتاب پر ہوا ہے ، قرآن حکیم کے متعلق ارشاد (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ یعنی قرآن بھی ایک روح ہے جسے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے ، اس لئے روح القدس سے مؤید ہونے کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ انہیں انجیل جیسا پاک صحیفہ دیا گیا جس میں تذکروتزکیہ کی پوری قوت ہے ، مگر بنی اسرائیل نے انجیل کی پاک اور بلند اخلاق تعلیم پر بھی عمل نہ کیا ، اس لئے کہ اس میں انہوں ان کی کاریوں پر صاف صاف ٹوکا گیا تھا ، لیکن اس سے خدا کا قانون اصلاح ورشد نہیں بدل سکتا ، انبیاء کی بعثت کا مقصد عوام کے جذبات کی رعایت نہیں بلکہ اصلاح ہے ،