سورة الانعام - آیت 119

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور کیا سبب ہے (ف ١) ۔ کہ تم اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ، حالانکہ اللہ تمہارے لئے وہ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں کھول کر بیان کرچکا ہے ۔ مگر وہ چیزیں جس کی طرف تم ناچار ہوجاؤ اور بہت لوگ بےعلمی کے سبب اپنی خواہشوں کے مواقع لوگوں کو بہکاتے ہیں تیرا رب ہی ان کو خوب جانتا ہے جو حد سے نکلے ہوئے ہیں ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) ایک اعتراض ذبیحہ پر یہ تھا کہ مسلمان خود مار کر کھا لیتے ہیں اور خدا کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس کی کیا وجہ ہے َ اس کا جواب یہ ہے کہ ذبح کرنے یہ راز مضمر ہے کہ اس سے توحید کا اعلان ہوتا ہے ، اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے ، اور مسلمان کو یہ انتباہ ہوتا ہے ، کہ کسی وقت اللہ کو فراموش نہ کرے ، (آیت) ” الا ما اضطرر تم الیہ “۔ سے غرض یہ ہے کہ اگر کھانے کو کچھ نہ ملے اور زندگی خطرے میں ہو تو حرام بھی کھالے ، زندگی بہرحال زیادہ عزیز ہے ، اور اصل میں حلت وحرمت کی بحث محض بقاء حیات کے لئے وہ چیزیں جو حیات انسان کے لئے مفید ہیں ، شریعت نے ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں رکھی اور وہ جو مضر ہیں ، انہیں حرام قرار دیا ہے ، حل لغات : اضطررتم : اضطرار کے معنی ہیں ‘ بےاختیاری ، اور بیچارہ ہونے اور بیچارہ کرنے کے ۔