قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
تو کہہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے میں ‘ اور نہیں کہتا کہ میں غیب دان ہوں اور نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں ، تو اسی وحی کے تابع ہوں ‘ جو مجھے ہوتی ہے ، تو کہہ کیا اندھا ، اور بینا برابر ہیں ؟ کیا تم فکر نہیں کرتے ؟ (ف ١) ۔
(آیت) ” ولا اعلم الغیب : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ تمام انبیاء سے بڑھ کر ہے کائنات میں کوئی شخص آپ کا درجے اور مرتبے میں سہیم وشریک نہیں ان کے پاس رشد وہدایت کے اور معارف ونکات کے بےپناہ خزانے موجود تھے ، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ دنیا کے لحاظ سے سرمایہ افلاس کا بہرہ وافر رکھتے تھے ، ان کی قدوسیت اور پاکیزگی میں کس کو شبہ ہے ، مگر بااین ہمہ وہ فرشتہ نہیں تھے ، اسی طرح ان کا علم کائنات میں سب سے زیادہ ہے اور رسول سے بڑھ کر اور کون عالم ہوتا ہے پھر بھی وہ غیب نہیں جانتے تھے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے ، غیب کی تشریح متعدد مواقع پر گزر چکی ہے ، اجمالا یہ سمجھ لیجئے غیب کا جاننا انسانوں کے لئے نہ وجہ فضیلت ہے اور نہ ممکن ۔ اللہ کا یہ بہت بڑا انعام ہے کہ ہم بعض حقائق سے ناواقف ہیں ، آج نہیں اپنی موت کا علم ہوجائے تو کیا کرو ، ایک دم مر جاؤ ، دنیا کے تمام کام رک جائیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان مصالح عامہ کی وجہ سے غیب نہیں جانتے تھے یعنی وہ نہیں جانتے تھے کہ کس طرح ان کا لخت جگر کربلا کے میدان میں ذبح کردیا جائے گا ، وہ یقینا اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ طائف میں جسد اطہر کو پتھروں اور اینٹوں سے مجروح کردیا جائے گا ، وہ آگاہ نہیں تھے کہ واقعہ افک میں کیا شرارت کام کر رہی ہے بےچین رہتے ہیں اور جب تک قرآن نازل نہیں ہوتا حضرت عائشہ (رض) عنہا کی جانب سے دل صاف نہیں کیا یہ واقعات ثبوت کے لئے کافی نہیں ؟ اس میں توبین کا کوئی پہلو نہیں ، مقصود صرف یہ ہے کہ رسول کا منصب نبوت جس علوم کا محتاج ہے وہ اسے حاصل ہوتے ہیں ، اس کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے (آیت) ” افلا تتفکرون “۔