وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
اور کوئی چلنے والا جانور ، یا دو بازو سے اڑنے والا پرندہ زمین میں نہیں ہے مگر تم آدمیوں کی مانند وہ بھی امتیں ہیں ، ہم نے کتاب میں کوئی چیز لکھنے میں نہیں چھوڑی پھر وہ اپنے رب کی طرف جائیں گے (ف ١) ۔
قانون ہدایت کی ہمہ گیری : (ف ١) آیت کا مقصد یہ ہے کہ قانون ہدایت وترہیب ہمہ گیر ہے کائنات میں کوئی جاندار چیز اس سے مستثنے نہیں ۔ سب پرندے اور سب حیوان اللہ کی جانب سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ، اور اس فطری ہدایت کی وجہ سے زندہ ہیں ، چڑیا سے لے کر چیونٹی تک کے لئے بندھے ہوئے اور مقرر قانون ہیں ، جن سے سرتابی کرنا ان کے لئے ناممکن ہے ، اسی طرح حضرت انسان یعنی روحانی زندگی کے لئے اللہ کی ہدایت کا محتاج ہے ، یعنی مکہ والوں کو بجائے معجزات کے ان حقائق پر غور کرنا چاہئے ، بعض لوگوں نے اس آیت سے تناسخ پر استدلال کیا ہے ، مگر یہ بوجوہ غلط ہے ، ١۔ کیونکہ قرآن میں صاف صاف یوم آخرت کو بطور عقیدہ کے پیش کیا گیا ہے ۔ ٢۔ تمام سامی مذاہب میں آخرت کا عقیدہ موجود ہے ۔ ٣۔ تناسخ صرف آرین مذاہب میں پایا جاتا ہے غالبا ” امم “ کا لفظ محل استدلال ہے مگر ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ امت کے معنی عربی میں مطلقا گروہ کے ہیں جس میں کوئی وجہ اشتراک پائی جائے اس میں حیوانات اور پرندے بھی داخل ہیں ، بلکہ یہ لفظ اس سے بھی عام ہے ہو مشترک الاطراف چیز اس میں داخل ہے ۔ حل لغات : دآبۃ : جانور ، مایدب علی الارض : امم : جمع امت ، علامہ راغب فرماتے ہیں ، ہر وہ مجموعہ جس میں کوئی بات مشترک ہو ۔