يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
مومنو ! تم اپنی جانوں کا فکر کرو ، جب تم نے ہدایت پائی تو گمراہ شخص تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، تم سب کو خدا ہی کی طرف جانا ہے سو وہ تمہیں جتائے گا ، جو تم کرتے تھے (ف ١) ۔
علیکم انفسکم : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ اصلاح سے قبل صلاح وتقوی کی ضرورت ہے ، اگر ہر شخص بجائے خود نیک اور متقی ہوجائے تو تبلیغ واشاعت کی قطعا ضرورت نہیں ، سب سے پہلے خود پرہیزگار اور صالح بننے کی حاجت ہے نہ یہ کہ اصلاح اور قیادت کے میدان میں آجائے اور ذاتی طور پر تقوی اور اصلاح نفس کے اسرار سے نامحرم ہو ، وہ شخص جو عامل نہیں ہے ، کتاب وسنت کی پروا نہیں کرتا فرائض میں سست وکاہلی ہے ، معاملات میں اچھا نہیں تھا ایک کو چنداں اہمیت نہیں دیتا ، اس سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں ، وہ جو کچھ کہے گا اور جو کچھ کرے گا ، ریا کاری اور دکھلاوے کے لئے جس کا بالکل اثر نہیں ہوتا ، لہذا قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے خود نفس کی اصلاح کرو ، عادات واخلاق کو سنوارو ، اچھے اور نیک بنو ، شریعت پر عمل کرو ، خلوص وایثار ، کا شیوہ اختیار کرو ، پھر دیکھو کفر ومعصیت سے تمہیں قطعا نقصان نہیں پہنچے گا تم کامیاب رہو گے ، اور تمہاری ہدایت گمراہی اور ضلالت پر غالب آجائے گی ،