أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
تمہارے لئے دریائی شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کیلئے حلال کیا گیا ہے اور تم پر جنگل کا شکار حرام ہے ، جب تک تم احرام میں ہو ، اور خدا سے ڈرو جس کے پاس جاؤ گے۔ (ف ١) ۔
(ف1) ان آیات میں اور اس قبیل کی آیات میں آداب حرم کا ذکر ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کے لئے تعرض ناجائز ہے ، البتہ دریا کا شکار یعنی مچھلی پکڑنا اور کھانا درست ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ اگر غیر محرم شکار کرے ، تو احرام والے کے لئے کھانا جائز ہے ، یا نہیں ۔ حضرت علی (رض) ، ابن عباس (رض) ، ابن عمر (رض) ، سعد بن جبیر (رض) ، اور طاؤس قطعی حرمت کے قائل ہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ محرم اس دقت کھا سکتا ہے ، جبکہ وہ خود شکار نہ کرے اور اس کے ایماء پر شکار کیا جائے ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محرم بالواسطہ اعانت نہ کرے ‘ تو جائز ہے ، بصورت اعانت ناجائز ۔ حل لغات : السَّيَّارَةِ: مسافر ، چلنے پھرنے والے لوگ ، مادہ سیر ۔