لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
خدا تم کو تمہاری بےفائدہ قسموں پر نہ پکڑے گا لیکن تم کو تمہاری ان قسموں پر پکڑے گا جن کو تم نے مضبوط باندھ لیا (ف ٣) پس پکی قسموں کا کفارہ دس محتاجوں کو کھلانا ہے اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا اس کا کفارہ انکو کپڑا دینا ہے یا غلام آزاد کرنا پھر جو کوئی نہ پائے وہ تین روز روزہ رکھے ، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ‘ جب تم قسم کھا بیٹھو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو اللہ یوں تمہیں اپنی آیتیں بتاتا ہے شاید کہ تم شکر و ۔
(ف ٣) مقصد یہ ہے کہ اسلام کا تعلق قلب وارادہ سے ہے ، وہ حرکات جو اضطراری ہیں ، لائق مواخذہ نہیں ، حفظ ایمان کے لئے کفارہ مقرر فرمایا ہے تاکہ مسلمان پاس عہد کی اہمیت کو محسوس کرے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں بااختلاف ہے کہ اطعام وکسوت سے مراد تملیک ہے ، ، یا محض تغذیہ واعطاء ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کھانا کھلا دینا کافی سمجھتے ہیں ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تملک ضروری خیال فرماتے ہیں ۔ حل لغات : ولا تعتدوا : مصدر اعتداء ، زیادتی ، حد ااعتدال سے تجاوز ، عقدتم : عقد ، گرہ دینا ۔ ال ایمان : جمع یمین ، بمعنی قسم ۔