لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
مسلمانوں کے لئے دشمنی میں یہود اور مشرکین (مکہ) کو تو سب آدمیوں سے زیادہ سخت پائے گا اور دوستی کے بارے میں مسلمانوں کے لئے تو ان کو زیادہ قریب پائے گا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاری ٰہیں ، یہ اس لئے کہ ان میں عالم اور درویش ہیں اور یہ لوگ تکبر نہیں کرتے ۔ (ف ١)
(ف1) قرآن حکیم نے جہاں یہودیوں کی قساوت قلبی کا تذکرہ کیا ہے اور مشرکین مکہ کی عداوتوں کو بیان کیا ہے وہاں نہایت فراخ دلی کی ساتھ عیسائیوں کی تعریف بھی کی ہے ، فرمایا ہے کہ یہودی اور مشرک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، مگر عیسائیوں میں ایسے فقیر اور صلح جو لوگ موجود ہیں جو کبر وپندار کے مرض سے آلودہ نہیں ہوتے اور جن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور محبانہ ہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی مال ودولت کے نشے میں مخمور تھے دینداری اور تورع کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ نہ تھا ، اس لئے وہ طبعا ہر اس تحریک سے متنفر تھے جو انہیں پاکبازی کی دعوت دے اور عیسائی چونکہ رہبانیت کی طرف مائل تھے اس لئے نسبتا زیادہ متاثر اور روادار تھے ۔ حل لغات : مَوَدَّةً: دوستی ومحبت ۔ قِسِّيسِ: اصل میں کشیش تھا جس کے معنی پہلوی میں میرآتشکدہ یا عالم دین کے ہیں ، ممکن ہے ‘ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ شیش سے بگڑا ہو جس کے معنی شاگرد کے ہیں ، عربی میں قسیس کے معنی عالم باعمل کے ہیں ۔