سورة المآئدہ - آیت 67

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تیرے رب سے تجھ پر نازل ہوا ، ان تک پہنچا دے ، اگر تو یہ نہ کرے تو تونے اس کا پیغام نہ پہنچایا اور خدا تجھے آدمیوں سے بچا لے گا بیشک خدا کافر قوم کو ہدایت نہیں (ف ١) کرتا ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منصب دعوت اور وعدہ عصمت : (ف ١) نبوت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص انسانیت کے فراز اعلی پر جلوہ گر ہے اور اس کا دل مہیط انوار الہی ہے اسے حکم ہے کہ اس روشنی کو جو تمہارے قلب پر پر تو فگن ہے عام کر دے اور دیدہ بینا کو موقع دے کہ وہ اس نور خالص سے بقدر تاب وتواں استفادہ کریں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ خدا کے احکام ومعارف بندوں تک بےکم وکاست پہنچا دیں ورنہ منصب دعوت ورسالت کے خلاف ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بخل سے کام لیں گے اور فیوض وانوار سے محروم رکھیں گے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت بتصریح مذکور ہے ۔ (آیت) ” وما ھو علی الغیب بضنین “۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خزینہ غیب تقسیم کرنے میں ممسک نہیں ہیں ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اخفاء واسرار کا عقیدہ رکھنا عہدہ رسالت سے ناواقفیت کی دلیل ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمی فیض وافادہ ہیں یہ محض غلط ہے کہ آپ نے چند چیزیں عوام سے پوشیدہ رکھی ہیں اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اسلام میں کوئی راز داری نہیں وہ صاف واضح روشن طریق عمل کا نام ہے ۔ (آیت) ” واللہ یعصمک “ میں عصمت ومحفوظیت کا وعدہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات دشمنوں کی ہر سیہ کاری سے محفوظ ہیں ۔ قریش مکہ نے جب چاہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معاذ اللہ ختم کردیا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعدہ عصمت کی بنا پر ان کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے صاف نکل گئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات بھی باوجود ہر سعی الحاد کے ویسی کی ویسی تابندہ وروشن ہیں ۔