يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اے رسول ! تو ان پر جو کفر کی طرف دوڑتے ہیں اور مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں (یعنی منافق) اور ان کے دل اسلام کو قبول نہیں کرتے غم نہ کھا (ف ٢) اور ان سے جو (مدینہ کے) یہودی ہیں جھوٹ بولنے کی جاسوسی کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لئے جو اب تک تیرے پاس نہیں آئے جاسوسی کرتے ہیں باتوں کو ان کے ٹھکانے سے بےٹھکانے کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر (محمد ﷺ) کی طرف سے تمہیں یہ حکم ملے تو قبول کرنا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو ماننے سے بچنا اور خدا نے جس کی گمراہی کا ارادہ کیا تو تو اس کے لئے اللہ کے ہاں کچھ نہیں کرسکتا ، یہ وہ ہیں کہ اللہ ان کے دل پاک کرنا نہیں چاہتا ، ان کے لئے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بڑا عذاب ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی بےچینی : (ف2) مقصد یہ ہے کہ رسول چونکہ پیکر ہوتا ہے خلوص اور شفقت کا اور حضور (ﷺ) ختم الرسل ہیں یعنی خلوص اور شفقت کی انتہائی اور آخری صورت اس لئے ضرور ہے کہ آپ (ﷺ) کو کفر ونفاق سب سے زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو ۔ ﴿لَا يَحْزُنْكَ﴾میں تلقین یہ ہے کہ آپ (ﷺ) جس درد سے بےچین ہیں ‘ اس میں تخفیف پیدا کیجئے کیونکہ جب یہی لوگ کفر ونفاق کی وجہ سے دکھ محسوس نہیں کرتے تو آپ کیوں حزن وملال سے کام لیں ۔ باوجود حضور (ﷺ) کی شفقتوں کے یہ منافقین کا گروہ ہمیشہ اسلام کی برکات سے محروم رہا اور ان کے دل آیات وبراہین دیکھنے کے باوجود خبث وکفر کے حامل رہے ، اس لئے خدا نے فرمایا کہ جب یہی اصلاح و ایمان کے ذوق سے آشنا نہیں ہونا چاہتے تو آپ (ﷺ) کیوں ان کے لئے بےقرار ہیں ۔ بات یہ ہے کہ نبی اپنے عہدے ومنصب کے لحاظ سے مجبور ہے کہ قوم کے لئے بےپناہ درد اپنے سینے میں پنہاں رکھے وہ دن اور رات ہمہ وقت ملت کی اصلاح کے لئے بےچین رہتا ہے اور باوجود سخت تکالیف کے بجز ” اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون “ اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے بعد یہودیوں کے جرائم گنائے ہیں کہ دیکھو ، یہ کم بخت کتنے جھوٹے ہیں اور کس طرح جاسوسی جیسے فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں اور کیونکر احکام الہی کو اپنی حسب منشا بدل لیتے ہیں ان سے خدا نے ہدایت کی توفیق چھین لی ہے اور دنیا اور آخرت میں ان کے سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کوئی چیز مقدر نہیں ۔ یہ لوگ جھوٹے اور حرام خور ہیں ، ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر اسلام کی روشنی کو قبول نہ کریں تو مضائقہ نہیں یہ اس درجہ ہدایت ورشد سے دور ہوچکے ہیں کہ اب ان کا راہ راست پر آنا از قبیل محالات ہے ۔ حل لغات : يُسَارِعُونَ ، مصدر یسارعۃ ۔ جلد بازی کرنا لپک کر اور دوڑ کر کسی چیز میں حصہ لینا ۔ هَادُوا ، یعنی یہودی ، یہودا کی طرف منسوب کرنا ۔ فَاحْذَرُوا: مادہ حذر ، بچو احتراز کرو ۔ فِتْنَتَهُ: ۔ آزمائش ۔ ابتلاء ۔