سورة البقرة - آیت 62

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

بےشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ ہوئے اور صابئین (ف ١) (بے دین یا ستارہ پرست) ہوئے جو کوئی ان میں سے اللہ پر اور آخری دین پر ایمان لائے اور نیک کام کرے ان کی مزدوری ان کے رب کے پاس ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ہمہ گیر دعوت : (ف1) مذہب کا مقصد نوع انسانی میں وحدت ویگانگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے انبیاء علیہم السلام اس لئے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنہوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں خدا ایک ہے اور اس کا منشاء تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانہ عظمت پر جھکیں ، تفرق وتشتت کا کوئی نشانی نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل واکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ وقومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھر گئے ہیں انہیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کردیں ، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا ، وہ اخوت انسانی کی بنیادیں ایمان وعمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا ، چنانچہ قرآن حکیم یہودیوں اور عیسائیوں کو کہتا ہے ، تم سب اسلام قبول کرسکتے ہو اور سب اس ہمہ گیر دعوت پر ایمان لا سکتے ہو ۔ یہ کسی خاص فرقے کو موروثی مذہب نہیں ۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے یہ یاد رہے کہ قرآن حکیم جہاں جہاں ایمان وعمل کی دعوت دیتا ہے وہاں مقصود قرآن حکیم کا پیش کردہ پورا نظام اسلامی ہوتا ہے ، اس لئے اس کے سوا کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں جس میں تمام انسانوں کو ایک سلک میں منسلک کردینے کی پوری پوری صلاحیت ہو ، ﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ﴾۔ حل لغات: هَادُوا۔ ماضی معنوم ، یہودی ہوئے ، مادہ یھودا ۔ وَالنَّصَارَى : عیسائی ، منسوب بہ ناصرہ ۔ صَابِئِينَ ۔ صابی ایک فرقہ تھا جس کی چند باتیں بظاہر اسلام سے ملتی جلتی تھیں ، لیکن اکثر باتوں میں وہ مجوسی تھے ۔