يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
مومنو ! اللہ کی نشانیوں ادب والے مہینہ اور قربانی کے جانور اور گلے میں پٹے پڑے ہوئے جانوروں کی اور عزت والے گھر (یعنی کعبہ شریف) کی طرف آنے والوں کی بےحرمتی نہ کرو کہ وہ اپنے رب کے فضل اور خوشی کی تلاش میں ہیں (ف ٢) اور جب تم احرام سے نکلو تو شکار کرو اور لوگوں کی دشمنی بہ سبب اس کے کہ انہوں نے تمہیں ادب والی مسجد سے روکا ، تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرو اور نیکی اور پرہیزگاری میں باہم ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے ۔ (ف ١)
(ف ٢) اس آیت میں شعائر اللہ کی تفصیل بیان کی ہے یعنی ارض حرم میں ہر نوع کی تکلیف وضرار ممنوع ہے ، اس لئے اگر شکار کی ضرورت محسوس ہو تو اس وقت جائز ہے جب فرائض حج سے فارغ ہوجاؤ ۔ (آیت) ” یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا “۔ سے مراد حجاج بیت اللہ ہیں ، کیونکہ ان کے مقاصد میں اتنہا درجے کی وسعت ہوتی ہے وہ جہاں خدا کی رضا ومحبت حاصل کرنے کے لئے ارض بابرکت کا سفر اختیار کرتے ہیں وہاں مال ودولت کا حصول بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ کسب وتجارت کو فضل سے تعبیر کرنا زبردست ترغیب ہے کہ مسلمان اس کو حاصل کرنے میں ازحد کوشاں رہیں ، حتی کہ عین اس زمانے میں جب وہ مناسک حج ادا کر رہے ہوں ‘ تجارت وتمول کے اسباب پر غور کریں ۔ انتہائی تصفت شعاری : (ف ١) مسلمان جب تک مکے میں رہے ‘ بیت اللہ کے تمامتر اختیارات مشرکین مکہ کے ہاتھ میں رہے اور وہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ خدا کے فرمانبردار بندے اس کے اس مقام جلیل میں اکٹھا ہو کر اس کا نام بلند کریں ، ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو ایک دفعہ مقام حدیبہ پر روک دیا گیا اور اجازت نہ دی گئی کہ وہ مناسک حج کو پوری آزادی سے ادا کرسکیں ، مگر جب مکہ دس ہزار قدوسیوں کے ہاتھ فتح ہوچکا اور مسلمان پوری آزادی سے حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے تو انہیں تلقین کی گئی کہ تم ان کو گزشتہ عداتوں اور دشمنیوں کے سبب زیارت وعبادت سے نہ روکنا کیونکہ تمہارا مشن تصفت شعاری اور عدل گستری ہے ۔ حل لغات : شنان : دلی بغض ۔