سورة النسآء - آیت 141

الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

وہ منافق تمہیں تاکتے رہتے ہیں پھر اگر تمہیں خدا کی طرف سے فتح ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے ؟ اور جو کافروں کی قسمت یاور ہوتی ہے تو ان سے کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تمہیں نہ گھیر لیا تھا اور مسلمانوں سے نہ بچا لیا تھا ؟ سو خدا تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور خدا کافروں کا مومنین (ف ١) پر ہرگز راہ (غلبہ) نہ دے گا ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

مسلمان ابدا غالب ہے : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ منافقین دونوں جماعتوں سے بنائے رکھتے ہیں ، مسلمان غالب رہیں تو کہتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور اگر دیکھیں کہ کفر عارضی طور پر غالب ہوگیا ہے تو انہیں پھر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم نے ہر طرح تمہاری جماعت کو مسلمانوں کے حملوں سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ (آیت) ” ولن یجعل اللہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا “۔ میں مسلمان کے دائمی غلبہ وتسلط کا اعلان ہے یعنی حجت وبراہین سے لے کر قوت ومنفعت کے تمام ذرائع تک مسلمان کے قبضہ میں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ابدا کفر ونفاق پر غالب وقاہر رہے گا ، اس کی قوتیں بےپناہ اور غیر محدود ہیں ۔ وہ دنیا میں ایک لمحہ غلامی کے لئے آمادہ نہیں ۔ آزادی وخلافت اس کی وفادار کنیزیں ہیں ، مگر اس وقت جب اس کا ایمان صحیح معنوں میں ایمان ہو ، جب اس کے ایمان کی درخشانی والمعانی چاند اور سورج کو شرمائے جب اس کے ایمان کی حرارت اس کے سینے میں ہمیشہ سوزان وتپاں رہے اور جب اس کے بازو میں قوت حیدری (رض) اور زور عمر (رض) موجود ہو ، نہ اس وقت جبکہ ایمان کی روشنی کفر کی ظلمت کے مشابہ ہوجانے اور نہ اس وقت جب اس کی حرارت کفر کی بردت سے بدل جائے اور نہ اس وقت جب بازوشل ہوجائیں اور قوت جواب دے جائے ، حل لغات : یخوضوا : مصدر خوض ۔ غور فکر بحث وتمحیص ۔