لْقَارِعَةُ
کھڑکھڑانے والی۔
سورہ القارعۃ (ف 1) اس سورت میں قرآن حکیم نے جو نظریہ نجات کے متعلق پیش کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہی قرین عقل وثواب ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ فطرت کا مطالبہ تم سے یہ نہیں ہے کہ تم زندگی کے تمام شعبوں میں سوفی صدی نیک اور اطاعت شعار رہو اور تم سے کوئی فکر وخیال کی لغزش اور عمل کی کوتاہی سرزد ہی نہ ہو ۔ بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ حتی الامکان نیک اور صالح بننے کی کوشش کرو اور اس طرح ایمان دارانہ اور محتاط زندگی بسر کرو ۔ اور یہ کہ بحیثیت مجموعی تمہارے اعمال میں نیکی اور صبر وتقویٰ اور پاکیزگی کے عناصر زیادہ ہوں ۔ یہ معیار کم نہ ہونے پائے ۔ کیونکہ اگر دفتر اعمال میں برائیاں زیادہ ہیں اور نیکیاں کم تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے دنیا میں حق وصداقت پر عمل پیرا ہونے کی کوئی مخلصانہ جدوجہد نہیں کی اس لئے سزا ملے گی اور جہنم میں جاؤ گے ۔ قرآن حکیم چونکہ خدائے علیم وخبیر کی کتاب ہے ، اس لئے اس میں انسانی فطرت کی پوری کمزوریوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ خدا کو معلوم ہے کہ یہ تقاضائے بشری کے خلاف ہے کہ اس سے کلیۃ نیکی اور تقویٰ کا مطالبہ کیا جائے اور اسکو ایسی مشکل میں ڈال دیا جائے جس سے یہ کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ۔ اسی لئے اس پر لایطاق بوجھ نہیں ڈالا گیا ۔ یہی وہ بات تھی جس کو عیسائیت نے نہیں سمجھا اور یہ قاعدہ وضع کیا کہ چونکہ انسان کا بالکل گناہوں سے پاک ہونا محال ہے اس لئے کفارہ کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ کلیۃ پاکیزگی کا فطرت مطالبہ ہی نہیں کرتی ۔ تابہ کفارہ چہ گونہ رسد ۔ واضح رہے کہ ﴿ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ﴾کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نیکیوں کی تعداد زیادہ ہو اور برائیوں کی تعداد کم ہو بلکہ جو شئے یہاں ملے گی وہ ثمنیت یا قیمت ہوگی جس کو اعمال سے مفتزع کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک برائی تمام نیکیوں کو ضائع کردے اور اسی طرح ایک نیکی تمام دفتر گناہ دھوڈالے ۔ اصل مقصود وہ قدر وقیمت ہے جو اعمال کے ساتھ ان کی اہمیت کی وجہ سے وابستہ ہے ۔