سورة الغاشية - آیت 22

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

تو ان پر داروغہ (ف 1) نہیں ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دین فطرت اور دین کون ف 1: قرآن صرف مسائل ہی بیان نہیں کرتا ۔ بلکہ فطرت کے عجائبات کی طرف بھی انسانی توجہات اور فکر وغور کو مبذول کرتا ہے ۔ اس لئے غرائب دنیا اور غرائب دین میں ایک عجیب تناسب ہے ۔ بلکہ قرآن تو اس حقیقت کا برملا اظہار کرتا ہے کہاسلام دین فطرت ہے ۔ اس میں اور قوانین فطرت وکون میں نہ صرف کوئی تضاد نہیں ۔ بلکہ پورا تو افق وتطابق ہے ۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ انسان اتنا وسیع النظر ہو کہ اسرار وعجائبات کون پر کامل طریق سے نگاہ رکھتا ہو ۔ اس لئے کہ حقائق کی راہ میں سب سے بڑی جو رکاوٹ ہوتی ہے ، وہ تعصب اور کوتاہ نظری ہوتی ہے اور فطرت کے آزاد مطالعہ سے یہ مرض دور ہوجاتا ہے ۔ فرمایا کہ ان کو اونٹ کی تخلیق پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کس درجہ مفید حیوان بنایا ہے اور ریگستانوں میں رہنے والے انسانوں کے لئے اس کا وجود کس درجہ سود مند ہے *۔ پھر آسمان کی بلندیوں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ نظام کواکب کیونکر بغیر ستون کے قائم اور استوار ہے ۔ پہاڑوں کی طرف غور وفکر کی نظریں دوڑانا چاہیے کہ کس طرح زمین میں گاڑ دیئے گئے ہیں ۔ کہ اب ان کے ثقل اور بوجھ کی وجہ سے زمین میں غیر طبعی حرکت پیدا نہیں ہوتی اور سورج اپنی طرف اس کو جذب نہیں کرلیتا ۔ پھر بساط ارضی کو دیکھنا چاہئے کہ کیونکر اسکو پاؤں تلے بچھادیا ہے کہ ہم اس کو پامال کرتے اور روندتے ہیں ۔ مگر یہ احتجاج نہیں کرتی ۔ کیا ان غرائب کو نیہ میں ان لوگوں کے لئے ذکر ونصیحت کی کوئی بات پنہاں نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ ان تک ان حقائق کو پہنچا دیں ۔ اب اگر یہ غوروفکر سے کام نہیں لیتے تو نہ لیں ۔ آپ پر اس کا بوجھ نہیں *۔ حل لغات :۔ بمصیطر ۔ دراوغہ ۔ سیطرہ سے ہے ۔ جس کے معنی قبضہ اور اقتدار ہیں * ایابھم لوٹنا ۔ رجوع کرنا *۔