سورة النسآء - آیت 101

وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تم زمین میں سفر کرو اور کافروں کی طرف سے فتنہ میں پڑنے کا تمہیں خوف ہو تو نماز میں سے کچھ کم کردینا گناہ نہیں ہے ۔ بیشک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں ۔ (ف ١)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فلسفہ صلوۃ خوف : (ف ١) ان آیات میں صلوۃ خوف کا ذکر ہے کہ جب میدان جنگ ہو ، دشمن کی طرف سے زبردست خطرہ ہو تو اس وقت فریضہ نماز کس طرح ادا کیا جائے ؟ مقصد یہ ہے کہ جنگ وجہاد مقصود بالذات نہیں ، دین کا اصل واساس عبادت ونیاز مندی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ نماز وعبادت کو بہرحال محفوظ رکھا جائے ، جہاد تو اس لئے ہے کہ مسلمان کو خدا کی عبادت کا آزادانہ حق ہو ۔ یعنی مسلمان میدان جنگ میں نماز پڑھ کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ بجز خدائے قہار کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور کوئی جنگ اور لڑائی اسے غیر اللہ کی پرستش پر مجبور نہیں کرسکتی ۔ صلوۃ خوف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عین اس وقت جب حیوانی قوتیں بزور ہوتی ہیں اور جب دونوں طرف غیظ وغضب کے شعلے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، اتنا خدا پرست اور حق وانصاف کے سامنے جھک جانے والا ہوتا ہے کہ ” نماز “ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اس کا دل ان حالات میں بھی ملکی قوتوں سے معمور ہوتا ہے ۔ جس مذہب میں تلوار کے سایہ میں بھی شوق عبادت کی تکمیل ضروری ہو ، کیا وہ مادی وحیوانی مذہب ہو سکتا ہے ؟ حل لغات : طائفۃ : گروہ ۔