سورة النسآء - آیت 86

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور جب تم دعا سلام کئے جاؤ (ف ٢) تو اس کا جواب دعا کے ساتھ اس سے بہتر لفظوں میں دو یا وہی لفظ واپس کرو ، بیشک خدا ہر شے کا حساب لینے والا ہے ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سلام : (ف ٢) تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں جن مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو ۔ اسلامی اصطلاح میں مراد اسلام علیکم کہنا ہے ۔ بات یہ ہے کہ جہاد میں بعض دفعہ مسلمان باوجود ” اسلام علیکم “ سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو ۔ قرآن حکیم نے فرمایا جو شخص تمہیں سلام کہے ، تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے سے بہتر ہدیہ سلام پیش کرو ۔ یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافر سمجھے ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ، باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بےحد موزون ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔