ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُونَ
پھر انہیں عنقریب ہی معلوم (ف 1) ہوجائے گا
سورۃ النباء ف 1: قیامت کے تخیل کو اس تفصیل اور اس اہمیت کے ساتھ صرف اسلام نے پیش کیا ہے اس لئے مکہ کے مادہ پرست مشرکین کو جو مذہبی معارف سے محض ناآشنا تھے ۔ یہ بات قرین عقل وثواب نظر نہیں آتی تھی ۔ وہ برملا کہتے تھے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ یہ دنیائے زینت وآرائش یکایک ایک دن تباہی وبربادی کے ساتھ بدل جائے گی ۔ ان کی رائے میں یہ مسئلہ محض طبع زاد حیثیت رکھتا تھا ۔ جس سے مقصود لوگوں کو خواہ مخواہ مرعوب کرتا تھا ۔ اس لئے اس کے متعلق اکثر بحث رہتی کہ قیامت کے امکانات کیا ہیں اور وہ کب وقوع پذیر ہوگی ۔ کیونکر ایسا ہوگا کہ یہ عالم آن کی آن میں تہ وبالا ہوجائے ۔ اس پر اس سورت میں ان کو بتایا کہ آج تمہاری عقول نے اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ تم اس کی حقیقت کو سمجھ سکو ۔ قرآن کا یہ مسئلہ تمہاری عقل سے کہیں بالا ہے ۔ اس کی نظریں آج سے چودہ سو سال بعد میں آنے والے علوم پر ہیں ۔ زمانہ گزرنے دو ۔ فکرودانش کو ترقی وعروج کی کچھ منزلیں طے کرنے دو ۔ اس کے بعد آپ سے آپ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ قرآن میں جو کچھ ہے حق وصداقت ہے اور قیامت اسی طرح ایک حقیقت ہے جس طرح دن کے بعد رات کا آنا اور زندگی کے بعد موت کا درود ۔ چنانچہ یہی ہوا وہ بات جو اس وقت مضحکہ خیز تھی ۔ آج اس کی حیثیت (سائنٹیفک ٹروتھ) یعنی حقیقت طبیعہ کی ہے ۔ آج طبیعات کے ماہرین نے اس نوح کے اندیشوں کا اظہار کیا ہے کہ یہ دنیا اور اس کی قوتیں اور اس کے متابع حیات سب فنا پذیر ہیں اور ایک وقت آنے والا ہے جب کہ یہ عالم رنگ وبو صفحہ کون سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا ۔ سب سے زیادہ امکان سورج کی طرف سے ہے کہ اس کی روشنی ایک دن میں کئی ٹن حرارت کو ختم کررہی ہے ۔ اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بالآخر یہ کرہ انار اپنی کل حرارت کھودے گا اور یہی قیامت ہے *۔ غور فرمایا آپ نے صاحب قرآن کا علم ؟ کیا اس کے خوارق علمیہ کے اظہار کے بعد بھی یہ رائے درست ہے ۔ کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں ہے *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ یتساء لون ۔ باہم ایک دوسرے سے پوجتے ہیں * النباء ۔ اہم بات * سباتا ۔ سبت کے معنی اصل میں قطع کرنے کے ہیں ۔ نیند چونکہ بےآرامی کو دور کردیتی ہے ۔ اور دن بھر کی کو فتوں اور مصیبتوں سے رشتہ غور وفکر کو منقطع کردیتی ہے ۔ اس لئے اس کو سباتا کہا جاتا ہے ۔ یعنی منقطع کرنے والی *۔