وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا
اور یہ کہ جیسے تم جنات (ف 1) خیال کرتے تھے ویسی ہی وہ (بنی آدم) خیال کرتے کہ اللہ ہرگز کسی کو نہ اٹھائے گا۔
جنات ، تاویل اور شہاب ثاقبہ (ف 1) اولا حکمائے یونان کے مقتدین نے جنات کا انکار کیا اور بعد میں یورپ زدہ حضرات نے اس ضمن میں تاویلات کو ضروری سمجھا ۔ حالانکہ قرآن حکیم میں احادث میں مذہبی صحائف میں اور مشرقی لٹریچر میں ان کے متعلق اتنا ذخیرہ ہے کہ انکار ناممکن ہے ۔ اور اب تو وہ عقلی مشکلات بھی درمیان میں نہیں رہی ہیں اب تو یورپ والے بھی کہہ رہے ہیں کہ جنات اور ارواح کا وجود برحق ہے اب ان کی تصویریں لی جارہی ہیں ان کا وزن دریافت کرلیا گیا ہے ان سے باتیں کی جاتی ہیں اور بغیر کسی فریب نفس اور سہوو خطاء کے اب یہ ایک مستقل سائنس ہے یعنی روحانیت ۔مگر اس وقت بھی بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے موجود ہیں اور نادانی کی وجہ سے تاویل پر مجبور ہیں ۔ انہوں نے آج سے پچاس برس پیشتر جو کچھ سنا تھا اس سے چمٹے بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ دنیائے معلومات میں بڑا انقلاب واقع ہوچکا ہے ۔ کل کے مسلمان آج مسترد اور مزخرفات قرار پارہے ہیں ۔ اور کل کے اوہام آج حقائق۔ آج جنات کا وجود صرف مشرق کا وہم نہیں ہے بلکہ مادہ پرست یورپ کی ایک حقیقت بن گیا ہے ۔ آج جگہ جگہ سیانس روم کھلے ہیں ۔ جہاں روحانین مشق روحانیت کرتے ہیں اور ان ارواح سے گفتگو کرتے ہیں اور ان اسرار ورموز کو معلوم کرتے ہیں جو عام انسانوں کی دسترس سے باہر ہیں ۔ ہاں یہ درست ہے کہ آج بھی ان کی حقیقت دریافت نہ ہوسکی مگر ان کے وجودکے بارہ میں کچھ شبہ باقی نہیں رہا ۔ قرآنی مسائل کے باب میں ایک اصول یاد رکھنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کو بھیجنے والا وہ خدا ہے جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ اس لئے وہ جو کچھ کہتا ہے وہ بلا کم وکاست بالکل درست ہے چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر بات کی کہنہ اور حقیقت کو پالیں ۔ بلکہ تجربہ تو یہ ہے کہ ہم اشیاء میں چند خواض وعوارض کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہیں ۔ بنا برین کسی وقت بھی تاویل کی احتیاج محسوس نہیں ہوتی ۔ ہمیں چاہیے کہ جب ہم دیکھیں کہ کوئی بات قرآن حکیم کی بظاہر مودودہ عقل رجحان کے خلاف ہے سو بجائے قرآن کے حقائق میں تاویل کرنے کے یہ کہہ دیں کہ اس عقل رائے میں اور حکیمانہ نظریے میں تاویل کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کی عقل اور کل کا سائنس اس کی تائید نہ کرے ۔ یہ نظر یے ہر آن بدلتے رہتے ہیں اور تغیر پذیر ہیں ۔ حالانکہ قرآن حکیم بالکل غیر متغیر اور غبر متبدل صداقت کا نام ہے ۔ اس میں بھی ترمیم اور اصلاح کی احتیاج محسوس نہیں ہوئی ۔ بہرحال عرض یہ ہے کہ جن اللہ کی ایک مخلوق ہے ۔ جو سمجھ اور شعور رکھتی ہے ۔ واقعہ یوں ہے کہ اسلام سے پہلے جنات آسمان کی طرف صعود کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ عالم بالا کی کچھ خبریں ان کو معلوم ہوجائیں ۔ جب حضور (ﷺ) کو مبعوث کیا گیا تو ایک رات جنات حسب عادات گھات میں بیٹھے منتظر تھے کہ کچھ معلوم ہو ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ شہاب ثاقب کی بارش ہورہی ہے اور سلسلہ سماعت بالکل منقطع ہوگیا ہے ۔ یہ چیز ان کے لئے نہایت حیران کن تھی یہ تجسس اور ٹٹول میں روانہ ہوگئے ۔ اور سوق عکازمیں پہنچ گئے وہاں دیکھا کہ پیغبمر اسلام قرآن حکیم کی تلاوت فرمارہے ہیں ۔ انہوں نے اس کو بغور سنا اور اپنی قوم کو آکر اطلاع دی ۔ اس سورت میں اس سماعت کا تذکرہ ہے واضح رہے کہ شہاب ثاقب قدیم الایام سے گرتا ہے ۔ اس کو زمانہ بعثت سے صرف اس قدر تعلق ہے کہ اس زمانہ سے اس کے اثرات میں اس چیز کا اضافہ کردیا گیا کہ وہ ان جنوں کو جو عالم بالا کی ٹٹول میں پرواز کرتے ہیں روک دے اور سماعت سے محروم کردے ۔ اس لئے کہ مقدرات میں سے ہے کہ حضور (ﷺ) کے زمانے میں اور ان کے بعد قیامت تک اب کوئی آسمانی ذریعہ معلومات انسان کے لئے بجز اس کے باقی نہ رہے کہ وہ ختم المرسلین کے باب نبوت پر دستک دیں اور جو کچھ پائیں یہاں سے پائیں ۔