إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ
ہم نے انہیں آزمایا ۔ جیسے باغ (ف 1) والوں کو آزمایا تھا ۔ جب انہوں نے قسم کھائی کہ صبح ہوتے ہی ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے
ف 1: ان آیات میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے ۔ کہ جو لوگ اللہ کے مال ودولت کی بنا پر احکام الٰہی کا انکار کردیتے ہیں ۔ اہیں یقین رکھنا چاہیے ۔ کہ یہ فراوانی اور آسودگی ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ فرمایا کہ مکے والوں کہ ہم نے عیش وتکلفات سے بہرہ مند کرکے اسی طرح آزمایا ہے ۔ جس طرح کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو ہم نے مال ودولت سے نوازا ۔ ان کو ایک نہایت عمدہ باغ مرحمت فرمایا ۔ مگر انہوں نے ازراہ بخل یہ طے کرلیا ۔ کہ ہم اس کا پھل صرف آپس میں بانٹ لیں گے ۔ اس میں کسی غریب کا حصہ نہیں ہوگا ۔ پھر جو کچھ باغ کی آمدنی سے ملے گا ۔ اس کو صرف اپنی ان آسانی کے لئے استعمال کریں گے ۔ اور مستحقین کو کچھ نہیں دینگے *۔ حل لغات :۔ سنسیمہ علی الخرطوم ۔ یعنی اس کی شہرت کو خراب کردیں گے ۔ اس کی ذلت وتحقیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں منضبط کردیں گے * جریر کا شعر ہے ؎ نما وضعت علی النظر زوق میسی واعلی البعیث جلہ عت انف الا متظل ولایمسثنون ۔ انشاء اللہ نہ کہنا * طائف ۔ گردش ۔ عذاب * القمرتم ۔ کٹا ہوا کھیت * نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ ایکدن صیح کو جب یہ لوگ امید سے بھر پور باغ میں پہنچے ۔ تو دیکھا کہ بالکل ویران ہے ۔ اس وقت ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اور یہ کہنے لگے ۔ کہ اب ہم خدا کی طرف پلٹتے ہیں ۔ انشاء اللہ وہ ہم کو اس سے زیادہ بہتر باغ عنایت فرمائے گا *۔