الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے اور اس لئے بھی کہ وہ اپنے مال میں سے خرچ کرتے ہیں (ف ٢) پس نیک بخت عورتیں فرمانبردار (ہوتی ہیں) اور اللہ کی حفاظت سے شوہروں کی غیبت میں خبرداری کرتی ہیں اور وہ عورتیں جنکی بدخوئی سے تم ڈرتے ہو انہیں سمجھاؤ اور خوابگاہوں میں جدا چھوڑ دو اور انہیں مارو پھر اگر وہ تمہارا کہنا مانیں تو ان پرالزام کی راہ تلاش نہ کرو ، بےشک اللہ بلند سب سے بڑا ہے (ف ١)
الرجال قوامون : (ف ٢) قوام یاقیم کے معنی ہوتے ہیں منصرم یا منتظم کے اس آیت میں فلسفہ تدیبر منزل کی مشکلات کا حل ہے ، عائلہ یا فیملی ایک قسم کی چوٹی سی ریاست ہے جس کے متعدد رکن ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کا منتظم ومنصرم کون ہے ، قرآن حکیم کا فیصلہ یہ ہے کہ مرد ۔ اور اس کی وجہ سے مرد عورت کے لئے آذوقہ حیات بہم پہنچانے پر مجبور ہے ، عورت نہیں ، اور اس لئے بھی کہ فطری طور پر مرد ہی منتظم بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ یہ درست ہے عورتیں بھی کام کرسکتی ہیں مگر وہ ہر وقت وہ ایسا نہیں کرسکتیں ان کی جنسی کمزوریاں انہیں بہرحال منصرم رہنے کی اجازت نہیں دیتیں ، بخلاف مرد کے کہ وہ کڑی سے کڑی مصیبتیں برداشت کرلیتا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہ ہیں جو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی ہیں اور خاوند کی دل سے قدر کرتی ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ اس ریاست کا نظام یکسر جمہوری ہے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی بلامشورہ نہ ہونے چاہئیں چنانچہ دودھ پلانے کا مسئلہ دوسرے پارے میں گزر چکا ہے کہ وہ بھی باہمی تشاور وتراضی سے ہو ۔ حل لغات : موالی : جمع مولی ۔ آزاد کنندہ ، آزاد شدہ غلام حلیف ابن عم ولی اور عصبہ تمام معانی میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ (ف ١) یہ حقیقت ہے جس کا بارہا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ قرآن حکیم ہماری تمام مشکلات کا حل اس خوبصورتی اور جامعیت سے پیش کرتا ہے کہ بےاختیار دل سے کلمات تحسین نکل جاتے ہیں ، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو معاشرت کے تمام ابواب وفصول ہمارے لئے واشگاف کرکے رکھ دیتی ہے ، اس میں فلسفہ وحکمت کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر انسانی سعادت وفلاح کا دارومدار ہے ، اس طرح مذکور ہیں کہ قربان جائیے اور پھر بھی جذبہ احترام میں کمی نہ پیدا ہو ۔ اس آیت میں عورت کے نشوز وتمرد کا علاج بتایا ہے ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو باوجود تعلیم یافتہ ہونے ان رموزواسرار سے واقف نہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو کافی سرمایہ دار ہیں ‘ لیکن پھر بھی ان کی بیویاں ان سے ناراض رہتی ہیں اور وہ نہایت اضطراب وبے چینی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ قرآن حکیم ایک طرف تو مرد سے کہتا ہے (آیت) ” وعاشروھن بالمعروف “ ، دوسری طرف عورت کو خاوند کی اطاعت پر مجبور کرتا ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر نشوز واختلاف کا خوف ہو تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ عظوھن “ سب سے پہلے انہیں ” وعظ “ سے بدلنے کی کوشش کی جائے ، ” وعظ “ سے مراد ناصحانہ گفتگو ہی نہیں بلکہ مشفقانہ برتاؤ بھی ہے یعنی اپنے قول وفعل کے لحاظ سے عورت کے لئے اس درجہ محبوب ودل پسند بننے کی کوشش کرو کہ وہ لامحالہ متاثر ہو ، تمہارے بلند اخلاق اسے مجبور کردیں کہ وہ اپنی غلطی کو محسوس کرے اور عورت اگر اس قدر سمجھ دار نہ ہو تو پھر اس کے ” جذبات “ سے اپیل کرو اور اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ اسے بستر پر تنہا چھوڑ دو ۔ اور یہ اس وقت زیادہ موزوں ہوگا جب تم اکٹھا ایک بستر پر استراحت اختیار کرو ، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اس انقطاع کو برداشت نہیں کرے گی ۔ عورت کی یہ فطرت میں داخل ہے کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے ، بجز اپنے محبوب کے غصہ کے ، اور اگر اس پر بھی تبدیلی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بالکل عام عورت ہے ، اس لئے عامیانہ سلوک کی مستحق ہے اسے پٹینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ تیسرا درجہ ہے ۔ جو لوگ ان نکات ازدواج نہیں جانتے ، نہایت معمولی باتوں پر اپنے گھر کو دوزخ بنا لیتے ہیں ورنہ اگر وہ اسلامی اور قرآنی زندگی بسر کریں تو ان کا گھر اس دنیا میں بہشت کا نمونہ بن جائے ،