يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو ف 1 تو انہیں عدت کے وقت طلاق دو ۔ اور عدت گنتے رہو ۔ اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود بھی نہ نکلیں ۔ مگر جب وہ صریح بےحیائی کا کام کریں ۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھا ۔ اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا ۔ اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ طلاق کے بعد کوئی نئی بات نکالے
اسلامی نظام ازواج ف 1: اسلام پہلا اور آخری مذہب ہے ۔ جس نے معاشرتی گتھیوں کو بوجہ احسن سلجھایا ہے ۔ اور نظام ازدواجی کو کامل ترین اور معقول ترین صورت میں پیش کیا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے نکاح میں ۔ اگر تائید مقصود نہ ہو ۔ اور غرض عارضی لذت اندوزی ہو ۔ تو وہ زنا ہے ۔ اور قانو ناًبالکل جائز نہیں ۔ چنانچہ قرآن حکیم اور شرعیت اسلامیہ کی توقعات کایک شادی شدہ انسان سے یہ ہیں ۔ کہ وہ حتی الامکان اس رشتہ کو آخر تک نبھائے گا ۔ مگر یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ کہ ہر شخص ہر حالت میں فطرت کی طرف سے مجبور ہے ۔ کہ کبھی اس میں اور اس کی بیوی میں اختلاف پیدا نہ ہو جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ اور جن کے ممسلک میں طلاق حرام ہے ۔ وہ بھی جہاں تک حالات کا تعلق ہے ۔ جدائی اور علیحدگی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ کہ باوجود مال محبت کے بعض وقت دونوں میاں بیوی اخلاقی اور روحانی نقطہ نگاہ سے ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا زیادہ مناسب اور اون ہے ۔ لہٰذا اسلام کے طلاق کی اجازت دے کر انسانیت پر ظلم نہیں کیا ہے ۔ بلکہ انسانی فطرت کی ترجمانی کرکے اس کو بہت سے مظالم سے بچا لیا ہے ۔ بعض دفعہ تحریر طلاق کے لئے ایک جذباتی ولیل پیش کی جاتی ہے ۔ کہ وہ رشتہ جس کو خدانے جوڑا ہے ۔ تمہیں کیا استحقاق ہے کہ اس کو توڑ دو ۔ مگر یہ نہیں سوچا جاتا ۔ کہ اس دلیل میں معقولیت کتنی ہے ۔ اول تو یہ غلط ہے ۔ کہ رشتہ فطری رشتہ ہے ۔ کیونکہ عملاً ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ بیوی کے مرجانے کے بعد دوسری شادی کا مرد کو اختیار حاصل ہے ۔ اسی طرح مرد کے انتقال کیب عد عورت دوسرے مرد کو حاصل کرسکتی ہے ۔ حالانکہ فطری رشتہ کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ اس کو کوئی بدل قرار نہ دیا جاسکے *۔ جس طرح کہ ماں باپ اور بھائی بہنیں ۔ کہ آپ بڑی کوشش کریں ۔ ماں کی جہ دوسری ماں اور باپ کی جگہ دوسرا باپ نہیں پاسکتے ۔ اسی طرح بھائی اور بہنوں کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔ پھر ان رشتوں میں قدرتی طور پر استحکام اتنا ہے ۔ کہ اگر آپ ناراض بھی ہوجائیں ۔ جب بھی ماں کے ماں ہونے سے اور باپ کے باپ ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ۔ آپ مجبور ہیں ۔ کہ ہر حالت میں ان رشتوں کو تسلیم کریں ۔ بخلاف میاں بیوی کے تعلق کے ۔ یہ ان معنوں میں فطری رشتہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اس رشتہ کا محرک کذبہ جنس وانس ہے ۔ قانون اور فقہ اس کو باقاعدہ شکل دے دیتا ہے ۔ اور پھر جب یہ معلوم ہو کہ اس کذبہ جنس وانس کی تکمیل میں یہ رشتہ حائل ہے ۔ تو قانون وقفہ کو اتنا اختیار ہے ۔ کہ اس کو منقطع کردے ۔ ثانیا اس دلیل میں یہ مغالطہ ہے ۔ کہ جس کو خدانے جوڑا ہے ۔ اسکو گویا ہم توڑ رہے ہیں ۔ حالانکہ خدا کے قانون کے ماتحت اس کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ اور اسی کی ہدایت کے مطابق ہیں کو ختم کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے ۔ کہ قرآن حکیم نے فلسفہ ازواج کو جس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ۔ وہ اسی کا حصہ ہے *۔ ان آیات کا اختصار کے ساتھ یہ مطلب ہے ۔ کہ جب طلاق دو ۔ بہتر حالت میں دو ۔ جب کہ ظاہری تنظر کے اسباب موجود نہ ہوں ۔ یعنی طہر اور پاکیزگی کی حالت میں ۔ اور عدت کو باقاعدہ گنتے رہو ۔ یہ بھی ضروری ہے ۔ کہ عورتیں اس اثنا میں اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں ۔ کیونکہ ممکن ہے ۔ کہ طلاق کے بعد پھروہ اپنے طرز عمل سے دوبارہ خاوند کو رجوع پر آمادہ کرسکیں ۔ ہاں اگر کھلی بےحیائی کا ارتکاب ہو ۔ تو اس وقت مرد کو عورت کے گھر سے نکال دینے کا حق حاصل ہے ۔ پھر جب طلاق رہتی میں عدت ختم ہونے کو ہو ۔ تو مرد کو یہ اختیار حاصل ہیں ۔ یا تو شرافت اور حسن سلوک کے ساتھ اس کو اپنے نکاح میں رہنے دے ۔ یا قاعدہ کے موافق اس کو جدا کردے ۔ وہ عورتیں جو عمر کی زیادتی سے حیض سے مایوس ہوں اور وہ جو صغر سستی کی وجہ سے ابھی اس قابل نہ ہوں ۔ وہ تین مہینے تک عدت گزاریں ۔ اور اس کے بعددوسرا نکاح کریں *۔ حل لغات :۔ شح ۔ بخیل اور حرص * بعدتھن ۔ بمعنے طہر میں *۔ حل لغات :۔ بفاحشۃ ۔ بےحیائی ۔ مراد زنا * مبغوض ترین جواز طلاق کو اسلام بالکل اضطراری حالات میں جائز تصور فرماتا ہے ۔ اور یہ قطعاً پسند نہیں کرتا ۔ کہ جاہلیت کی طرح ایک آدمی جب چاہے ۔ بلا کسی عذر کے عورت کو چھوڑ دے ۔ یہی وجہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ۔ البغض امباحات عنداللہ الطلاق ۔ کہ اللہ کے نزدیک وہ بات جو جائز تو ہے مگر مبغوض ترین صورت میں وہ طلاق ہے ۔ یعنی اپنی رفیقہ حیات کو اپنے سے جدا کرنا ۔ بعض غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ اسلام میں طلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں ۔ یا اسلام نے طلاق کے ایجاد کرنے میں اذلیت اختیار کی ہے ۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ اسلام نے طلاق پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں ۔ کہ ایک پرہیز گار انسان کے لئے عام حالات میں عورت کو ھوڑ دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے ۔ کہ یہ صلاح وتقویٰ کے خلاف ہے ۔ اور اس جذبہ کے خلاف ہے جس کو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ گھر اگر حالات اس کو بالکل مجبور ہی کردیں ۔ تو بھی رجوع کے مواقع باقی رکھے ہیں ۔ تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ لے ۔ اور اگر چارہ وناچار وہ اس مقام تک پہنچ جائے ۔ جہاں پہنچ کر علیحدگی ضروری ہوجاتی ہے ۔ تو پھر اسلام اس کے اس جائز حق کو پامال نہیں کرتا ۔ بلکہ اس کو اجازت دیدی ہے ۔ کہ بذریعہ طلاق عورت کو چھوڑ دے اور وہ بھی تکلیف سے آزاد ہوجائے ۔ آپ غور فرمائیے ۔ کہ وہ ان حالات میں بھی جبکہ میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہیں تقوی اور نیکی کی تلقین کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ ان تعلقات کو یوں منقطع کرو ۔ جس طرح ایک پاکباز انسان بدرجہ مجبوری منقطع کرتا ہے ۔ خود غرض اور ظالم آدمی کی طرح نہیں ۔ گویا اسلام چاہتا ہے ۔ کہ مسلمان عالم غیض وغضب میں بھی اخلاقی بلندی کو ہاتھ سے نہ ڈالے اور ثابت کردے کہ وہ یہ علیحدگی جو گوارا کررہا ہے ۔ تو بالکل مجبور ہوکر ورنہ وہ جانتا نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ اولاف الاخوتی ۔ حاملہ عورتیں *۔ اسلام سے پہلے بھی طلاق کا رواج تھا ۔ اور اس پر کوئی پابندی عائد نہ تھی ۔ ایک مرد جب چاہتا عورت کو طلاق دے دیتا ۔ اور پھر جب چاہتا رجوع کرلیتا ۔ اسلام نے اس صورت حالات کو بالکل ختم کردیا ۔ اور اس کو باقاعدہ نظام کی شکل میں ڈھال دیا *۔ ان آیات میں اجمال کے ساتھ ان مسائل کا ذکر ہے *(1) حاملہ عورت کی عدت تاوضع حمل ہے *(2) مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق مکان دو *(3) ان کو تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ دو *(4) اگر مطلقہ عورت حاملہ ہو ۔ تو اس کے نفقہ کا بھی بندوبست کرو *(5) اگر بچہ ہو تو دودھ کے لئے اس کی ماں کو اجرت دو *۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے ۔ کہ جن قوموں نے اپنے رب کی مخالفت کی ہے ۔ وہ دنیا سے مٹ گئی ہیں ۔ اور غالباً اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے ۔ کہ جب قومیں مٹتی ہیں ۔ تو ان کی تباہی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ۔ کہ ان کی خانگی زندگی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اور وہ اپنے گھر کے اندر ہر سعادت اور ہر مسرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد ان کی یہ محرومی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتی ہے *۔ واللہ اعلم حل لغات :۔ من وجدکم اپنی وسعت کے موافق *۔ واتمروا بیناکم ۔ تعاون باہمی سے کام لو ۔ باہم مشورہ کرلیا کرو *۔