سورة الحشر - آیت 10

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور وہ مال ان کا بھی حق ہے جو ان مہاجرین وانصار کے بعد (ف 1) آئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں بخش دے ۔ اور ہمارے دلوں میں ایمان داروں کی عداوت نہ رکھ ۔ اے ہمارے رب توہی شفقت کرنے والا مہربان ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: ان آیات میں ان لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ جو اموال غنیمت کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ فرمایا ۔ اس مال میں ان غریب مہاجرین کا حصہ ہے ۔ جو اپنے گھر اور اپنے مال وسامان سے جبرا جدا کردیئے گئے ۔ جو محض اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں ۔ اور وقتاً فوقتاً جب ضرورت پڑے میدان جہاد میں بطور سپاہی کے لڑتے ہیں ۔ اور اپنی صداقت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ پھر وہ انصار بھی اس کا ستحقاق رکھتے ہیں ۔ جو مدینہ میں پہلے سے قیام پذیر ہیں ۔ اور ایمان کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ۔ جو مہاجرین کو وقعت کی کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ ان کی آسودگی سے نہ صرف خوش ہوتے ۔ بلکہ بسا اوقات ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ۔ چاہے خود تکلیف ہی میں کیوں نہ مبتلا ہوں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی مستحق ہیں ۔ جو ان کے بعد آئے ۔ اور ان کے لئے ازراہ اخلاص مغفرت کی دعا کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ نبوء الداروال ایمان ۔ جنہوں نے مدینہ کو اور عقیدہ اسلام کو اپنا مسکن قرار دیا ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ مسلمان مقامی قید کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اس کے نزدیک اس چیز عقیدہ کی حفاظت وصیالت ہے ۔ اور وہ زمین کے جس گوشے میں میسر ہو ۔ اس کا وطن ہے ۔ خصاصۃ ۔ فاقہ اور عشرت ۔ یعنی مسلمان ہمیشہ ہر حالت اپنے دوسرے بھائی کی ضروریات سے زیادہ لائق توجہ خیال کرتا ہے * غلا ۔ کینہ ۔ حسد *۔