سورة المجادلة - آیت 13

أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

کیا تم اس سے ڈرگئے ۔ کہ کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات لاکر آگے رکھو ۔ پھر جب تم نے یہ نہ کیا ۔ اور اللہ نے تمہیں معاف کردیا ۔ تو اب نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول (ف 1) کی اطاعت کرو ۔ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پہلے خیرات دو پھر سرگوشی کرو ف 1: باوجود اس کے کہ حضور کائنات میں سب سے بڑے انسان تھے ۔ سادگی رحمت اور عفو کا یہ عالم تھا ۔ کہ آپ تک پہنچنے کے لئے کسی توسل کی حاجت نہ تھی ۔ کوئی صاحب اور دربان نہ تھا ۔ جہاں بیٹھتے ۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کے ساتھ ہوتا ۔ ہر شخص کو ہر وقت آزادی حاصل تھی ۔ کہ وہ آپ سے مسائل پوچھے ۔ آپ کو مخاطب کرے ۔ آپ کا سارا وقت خلق اللہ کی خدمت کے لئے وقف تھا ۔ اس سے جہاں یہ فائدہ ہوا ۔ کہ فیضان نبوت عام ہوا ۔ اور برکات کا دریا امڈا ۔ تو ہر جگہ سیراب ہوگئی ۔ وہاں اہل غرض اور باب تعلق نے یہ چاہا ۔ کہ آپ کی سادگی سے ناجائز استفادہ کیا جائے ۔ اور آپ کو اس طرح گفتگو میں سرگوشیوں میں اور مشوروں میں مشغول رکھا جائے ۔ کہ آپ غرباء اور مساکین کی طرف توجہ نہ دے سکیں ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لئے کچھ اس طرح مخصوص کرلیتے ۔ کہ دوسروں کو موقع ہی نہ ملتا ۔ کہ وہ کچھ پوچھ سکیں ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ کہ دیکھو حضور کو مخاطب کرنے سے پہلے عقیدت کے ثبوت میں کچھ نذرانہ پیش کرو ۔ جو فقراء کے لئے بمنزلہ خیرات کے ہو ۔ اور جس سے تمہاری پاکیزگی قلب اور خلوص کا امتحان ہوسکے ۔ اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ وہ ہجوم چھٹ گیا ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وقت ضائع کرتا تھا ۔ اور ان کو معلوم ہوگیا ۔ کہ ہماری شرارت کا پتہ چل گیا ہے ۔ لہٰذا یہ حکم بھی موقوف ہوا ۔ فرمایا ۔ اگر مخلصین کے لئے یہ خیرات دینا دشوار ہو ۔ تو وہ نہ دیں ۔ نماز اور زکوٰۃ کے نظام کو برقراررکھیں ۔ اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہیں ۔ بس یہی کافی ہے *۔ حل لغات :۔ صدقۃ ۔ خیرات * ءاسفقتم ۔ کیا تم ڈر گئے *۔