أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کیا تونے یہ نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ۔ اللہ سب جانتا ہے ۔ جب تین کا مشورہ ہوتا ہے تو وہ (ضرور) ان کا چوہتا ہوتا ہے اور جب پانچ کا ہوتا ہے تو وہ اانکا چھٹا ہوتا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ جہاں کہیں (ف 1) بھی ہوں وہ (ضرور) ان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال کی خبر دیگا ۔ بےشک اللہ کو ہر شئے معلوم ہے۔
(ف 1) منافقین اور منکرین خفیہ طور پر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے اور سرگوشیاں کرتے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہم سے کوئی بات پوشیدہ اور مستتر نہیں ہم سب کچھ جانتے ہیں ۔ زمین کی وسعتیں اور آسمان کی بلندیاں سب ہمارے سامنے ہیں ۔ جب یہ لوگ تین ہوتے ہیں تو چوتھا ان میں ہمارا وجود ہوتا ہے ۔ اور جب یہ پانچ ہوتے ہیں تو چھٹے ہم ہوتے ہیں ۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی راز کی بات کریں اور ہم اس کو نہ جانیں ۔ کیونکہ ہمارا علم ہر چیز کو محیط ہے ۔ واضح رہے کہ یہ معیت جس کا ذکر یہاں ہوا ہے محض علم اور شہادت کی رو سے ہے ۔ ورنہ اللہ تعالی چیز ومکان کی احتیاجات سے بےنیاز ہے ۔ وہ اگرچہ مخلوق سے جدا ہے مگر اس کا علم اس درجہ وسیع ہے کہ وہ ہر واقعہ کو براہ راست جانتا ہے ۔