سورة المجادلة - آیت 1

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارہ میں جھگڑا کررہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کرتی تھی اور اللہ تم دونوں کی باتیں سنتا تھا بےشک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔ (ف 1)

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

عورت کا درجہ قانون میں (ف 1) اسلام سے پہلے طلاق کی صورت یہ تھی کہ خاوند بیوی سے کہتا ’’ أنتِ عليَّ كظَهرِ أمِّي ‘‘ یعنی اب تو میرے لئے میری ماں کی حیثیت میں ہے اور بربنائے رواج پھروہ عورت دائمی طور پر مفارقت اختیار کرلیتی ۔ اس کو اصطلاح میں ظہار کہتے تھے خولہ بنت ثعلبہ حضور (ﷺ) کے پاس فریاد لے کر آئی کہ الفاظ استعمال کئے ہیں میرے اولاد بھی ہے اگر ان الفاظ سے علیحدگی واقع ہوجاتی ہے تو بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔ اولاد کو اگر خاوند کے سپرد کرتی ہوں تو مجھے خطرہ ہے کہ وہ شفقت سے ان کی تربیت نہیں کریگا اور اگر اپنے پاس رکھتی ہوں تو اندیشہ ہے کہ بھوکوں نہ مرجائیں میں ان کو کیوں کر پالوں گی ۔ حضور (ﷺ) نے فرمایا کہ وہ جب یہ الفاظ کہہ چکا ہے تو اب تو اس پرحرام ہوچکی ہے اور میاں بیوی کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں، وہ روئی اور کہتی یا رسول اللہ اس نے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں ۔ اور حضور (ﷺ) عام مسلک کی بنا پر یہی فرماتے کہ اب تو کوئی گنجائش نہیں ہے اتنے میں حضور (ﷺ) پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور ظہار متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جن میں بتایاگیا کہ یہ جاہلیت کا دستور قطعاً غلط ہے کہ مطلقاً عورت کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں بن جائے ۔ ماں تو وہی ہے جس نے اس کو جنا ہے اور جو اس کی وجود میں لانے کا باعث ہوئی ۔ یہ قول اور یہ انداز بیان غلط اور جھوٹ ہے ۔ اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ باہمی اختلاط سے پہلے غلام آزاد کیا جائے یا دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں ۔ یا اگر اتنی بھی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ۔ یہ اس لئے کہ ہر مسلمان کو معلوم ہو کہ یہ رشتہ کس درجہ ذمہ دارانہ سلوک کا مستحق ہے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کی تمام امیدیں دنیا والوں کی طرف سے منقطع ہوجائیں اور وہ توجہ وتضرع کے ساتھ جناب باری میں اپنی گزارشات کو پیش کر ے تو وہاں ضرور شنوائی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بدرجہ غایت مہربان اور شفیق ہیں ۔ وہ ان کی معروضات کو پوری شان کرم کے ساتھ سنتے ہیں ۔ اور لباس قبولیت سے مشرف فرماتے ہیں ۔ دیکھئے یہاں ایک طرف رواج ہے کہ اس کی پابندیاں، دوسری طرف ایک ضیعف اور بے کس عورت ہے ۔ جس میں اتنی قوت نہیں ہے کہ رواج کی کڑی زنجیروں کو توڑ سکے ۔ مگر جب وہ روتی ہے اور الحاح وزاری اختیار کرتی ہے تو دریائے رحمت جوش میں آجاتا ہے اور محض اس ایک عورت کی وجہ سے ایک بات باقاعدہ قانون میں داخل ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : تُجَادِلُكَ۔ آپ سے جھگڑتی تھی ۔ جدل کا لفظ عربی میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کا طلاق اچھے معنوں میں ہے۔ تَحَاوُرَكُمَا۔ باہمی گفتگو ۔ سَمِيعٌ بَصِيرٌ۔ یہ اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ اسلام کے احکام حکم اور مصالح پر مبنی ہیں۔