سورة الحديد - آیت 21

سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اپنے رب کی معانی اور جنت کی طرف دوڑو ۔ اس جنت کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کی برابر ہے ۔ ان کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ۔ جسے چاہے دے اور اللہ کا فضل بڑا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

استحقاق اور تفضل کی بحث اس حیثیت سے کہ جنت صلہ ہے اعمال صالحہ کا ۔ اور ایمان کامل کا ۔ یہ استحقاق ہے ۔ اور اس جہت سے کہ خود اعمال صالحہ کی توفیق رحمت ہوتی ہے ۔ رب کریم کی جانب سے فضل اور کرم گستری ہے ۔ اور پھر ہمارے ناچیز اعمال کو اس درجہ اہمیت دیتا ۔ جن میں پہلو ریاکاری اور خود غرضی کے پنہاں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فضل اور نوزش ملتی ہے ۔ ورنہ کون شخص ہے جو دعویٰ کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ اللہ کے احکام کی بجاآوری میں مرتبہ احسان پر فائز ہے ۔ اور اس سے نیت وعمل کی کوئی کوتاہی استوار نہیں ہوئی ۔ اور پھر اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے ۔ کہ کسی اللہ کے بندے کو اعمال صالحہ کی پوری توفیق ہوئی ہے ۔ تب بھی یہ سب اعمال اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتے ہیں ؟ حیات کی نعمت کے مقابلہ میں کوئی نیکی رہی ہے ۔ جس تو بچا سکے ۔ کیا یہ درست نہیں ہے ۔ کہ ایک سانس کے لئے جو انسان کو میسر ہے ۔ کائنات کے ہزاروں قانون حرمت میں آتے ہیں ۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حقیر عاجز انسان زندگی کے ان لاوائے شکر اور اظہار سیاسی کے فریضہ سے عہدہ برا رہا ۔ یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ اعمال کے ایک اور کہتا ہے ۔ کہ اگر تم اسلام کے اوامروا ہی کو تسلیم کروگے اور شے کی کوشش کروگے ۔ تو وہ تم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا *۔