سورة الحديد - آیت 9

هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ سراج البیان - مستفاد از ترجمتین شاہ عبدالقادر دھلوی/شاہ رفیع الدین دھلوی

وہی ہے جو اپنے بندہ پر کھلی آیتیں نازل کرتا ہے ۔ تاکہ تمہیں ۔ اندھیروں سے نکال کر اُجالے (ف 1) میں لائے اور کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر شفیق مہربان ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

فیضان نبوت (ف 1) یعنی یہ کہ اللہ کی بخشش اور رحمت ہے کہ اس نے اپنے ایک نہایت ہی محترم بندے پر قرآن کی آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ ان کی وساطت سے لوگوں کو اندھیروں اور تاریکیوں میں سے نکال کر روشنی اور نور کی وادیوں میں لابسائے ان کو اوہام اور خرافات کی ظلمتوں سے روکے اور حقائق ومعارف کی جانب راہنمائی کرے ۔ یہ اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے حضور (ﷺ) کو بھیجا تاکہ بنی نوع انسان کو گمراہیوں میں پڑنے سے باز رکھیں ۔ حالات یہ تھے کہ ہر نوع کی برائیاں اور جرم ان پر مسلط تھے چاروں طرف گناہوں کا تعفن تھا ۔ تعلیم الٰہی سے کان ناآشنا تھے اور طبائع متنفر بت پرستی اور تقلید آباء کا زور تھا ۔ رسوم بدنے ان کی زندگی کو اجیرن کر رکھا تھا فواحش عام تھے تقویٰ اور پاکبازی کا نشان نہ تھا ۔ ان حالات میں حضور (ﷺ) تشریف لائے اور آپ کے فیض سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے ۔ روشنی نظر آئی عقل وذہن میں تابندگی اور روشنی پیدا ہوگئی ۔ اخلاق سنور گئے اور روح نے ارتقاء اور رفعت کی ٹھانی ۔ یہ حضور (ﷺ) کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ڈکیت حفظ امن کے ضامن قرار پائے ۔ ظالم اور جفاکار لوگوں نے خدمت وشفقت کا بہترین ثبوت دیا ۔ اور جو اکھڑا اور تند مزاج تھے سلیم اور حلیم بن گئے ۔ یہ ساقی کوثر کی فیاضی ہے کہ آج دنیا میں روشنی اور محبت موجود ہے اور مسلمان باوجود جغرافیائی تقسیم کے ایک وحدت دینی سے وابستہ ہیں اور ایک کنبہ کے فرد جیسے ہیں ۔ دین کا یہ تخیل کہ صداقت سب کی مشترکہ میراث ہے کس کا تخیل ہے ؟ یہ عقیدہ کہ ہر پیغمبر برابر کی تعظیم کا سزاوار ہے کس نے پیش کیا ۔ یہ خیال کہ دنیا کے ہر کونے میں انبیاء آتے اور خدا کی زمین کا کوئی گوشہ ابررسالت کے فیض بخشیوں سے محروم نہیں رہا ۔ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔ اور ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِه﴾کا دادآفرین ترانہ کس نے گایا ۔