سورة الواقعة - آیت 46

وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنثِ الْعَظِيمِ

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اور اس بڑے بے گناہ (ف 1) (شرک) پر اڑے رہتے تھے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: جہنمی لوگوں کے متعلق دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ توحید کے نور سے معراتھے ۔ ایک خدا کے سامنے نہیں جھکتے تھے ۔ بلکہ اپنے اس مسلک پر مصر تھے ۔ ان کو ہرچند دلائل سے قائل کیا جاتا ۔ کہ شرک وکفر کے لئے کوئی وجہ نواز نہیں ہے ۔ اور منطقی طور پر اس عقیدہ کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن یہ برابر اس تاریکی میں بڑھتے چلے جاتے ۔ اور مسلمانوں کو چڑانے کے لئے بتوں کی پوجا کرتے ۔ پھر ان کا یہ عقیدہ بھی تھا ۔ کہ جو کچھ ہے یہی زندگی ہے ۔ مرنے کے بعد حشر ونشر کا عقیدہ دور از عقل ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں ۔ اور صرف بوسیدہ ہڈیاں رہ جائیں تو اس وقت ہم کو اور ہمارے آباؤ اجداد کو قبروں میں سے اٹھا کھڑا کیا جائے ۔ فرمایا : اس میں قطعاً استحالہ کی کوئی بات نہیں ۔ تم سب پہلے اور پچھلے جمع کئے جاؤ گے ۔ اور ایک وقت مقررہ پر خدا کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ۔ سزا کے متعلق تصریح فرمائی ۔ کہ دنیا میں تو کام ودھن کی تواضع کے لئے انہوں نے سچائی کو چھوڑ دیا تھا ۔ اور یہاں ان کو جو کچھ ملے گا ۔ وہ قطعی ان کے ناگوار ہوگا ۔ یہاں یہ نہ قوم کھائیں گے ۔ اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔ پھر پیاسے اونٹوں کی طرح پانی کے ساتھ کھولتا ہوا پانی پئیں گے ۔ اس وقت کہا جائے گا ۔ کہ آج بھی تمہاری مہمانی ہے ۔ کھاؤ اور برداشت کرو *۔ حل لغات :۔ یصرون ۔ اصرار کیا کرتے تھے * الحنت العظیم ۔ بڑا گنا * زقوم ۔ ایک نہایت تلخ درخت کا نام ہے ۔ جس کیہندی میں تھوہڑ کہتے ہیں ۔ دوزخ میں ایک درخت ہے جو دوزخیوں کی خوراک ہوگا * اتھنیم ۔ پیاسے اونٹ * تزلھم ۔ مہمانی ۔ دعوت ۔ بطور طنز اور تحکم ہے *۔