سورة الفتح - آیت 27

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بے شک اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا جو مطابق واقع کے تھا کہ تم ضرور مسجد حرام میں انشاء اللہ چین سے اپنے سرمنڈواتے اور بال کترواتے ہوئے بےخوف داخل ہوگے ۔ پھر اس نے جانا جو تم نہیں جانتے تھے ۔ پھر اس نے اس سے پہلے ایک فتح قریب (ف 1) ٹھہرادی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر حدیبیہ سے قبل خواب میں دیکھا تھا ۔ کہ آپ اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہے ہیں ۔ اور پوری طرح مناسک حج ادا کررہے ہیں ۔ چنانچہ کوچ سے پہلے جو خوشخبری آپ نے سب مسلمانوں کو سنادی جس سے ان کے دل مضبوط ہوگئے ۔ اور جذبات مسرت سے معمور ہوگئے ۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر روک لئے گئے ۔ اور وہاں ایک معاہدہ ملنے پایا ۔ اور واپس ہوئے ۔ تو منافقین نے ازراہ استہزاء کہنا شروع کیا ۔ کہ ہم خواب کے مطابق نہ تو بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہم نے مناسک کو ادا کیا ہے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ پیغمبر نے جو کچھ عالم رویا میں دیکھا ہے ۔ اس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں ۔ انشاء اللہ قطعی اور حتمی طور پر تم لوگ مکہ میں داخل ہونگے ۔ اور مناسک کو ادا کروگے تم یہ نہیں جانتے ۔ کہ اس دفعہ رک جانے میں اور بظاہر دب کر مصالحت کرلینے میں کیا کیا مصلحتیں ہیں ۔ چنانچہ قرآن کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ اور یہی مسلمان جن کو حج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ حالانکہ اس وقت ان حالات میں اتنی پرزور پیش گوئی کرنا دشوار ہی نہیں ۔ بلکہ محال تھا *