مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ
اس بہشت (ف 2) کا بیان جس کا متقیوں سے وعدہ ہوا ہے یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہیں جس میں بدبو نہیں اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلا اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کو لذت دیتی ہے اور صاف (جھاگ اتارے ہوئے) شہد کی نہریں ہیں اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کا میوہ ہے اور ان کے رب کی طرف سے معانی ہے۔ کیا یہ لوگ ان کی مانند ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ آگ میں رہینگے اور وہ کھولتا ہوا پانی پلائے جائینگے پھر وہ ان کی انتڑیاں کاٹ ڈالے گا۔
(ف 2) یہ ان لوگوں کے درجہ کی تشریح ہے جن کا مطمع نظر صرف جذبہ حیوانیت کی تسکین وتکمیل نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ روح کی پاکیزگی کے لئے بھی کچھ کرتے ہیں۔ ان کے لئے جو مقام تجویز کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر نعمت وفور کے ساتھ موجود ہے وہاں صاف ، شیریں ، اور ٹھنڈے پانی کی نہریں ، خوش ذائقہ دودھ کے دریا ، اور نہایت لذیذ شراب اور عسل مصفیٰ کی نہریں ہوں گی ۔ اور ہر قسم کے پھل اور میوے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مولا کی رضا دل کو میسر ہوگی ۔ واضح رہے کہ خدا گائے اور بھینس کے تھنوں میں دودھ پیدا کرسکتا ہے ۔ وہ بہشت میں نہروں میں بھی اس کو بہاسکتا ہے ۔ اور جس کی قدرت میں یہ ہے کہ وہ مکھیوں کو شہد جمع کرنے کی قابلیت عطا کردے ۔ وہ یقینا اس سے زیادہ عمدہ ذرائع بھی اختیار کرسکتا ہے ۔ اس لئے ان چیزوں پر اعتراض کرنا درحقیقت اپنی کوتاہ نظری کا ثبوت دینا ہے ۔ حل لغات : آسِنٍ۔ وہ پانی جس کا مزہ اور بو تبدیل ہوجائے ۔ عَسَلٍ مُصَفًّى ۔ خالص شہد ۔